گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم بھول بھلیوں میں پڑے ہیں۔ہم ہر 5 سال بعد اِس اُمید پہ حکمران منتخب کرتے ہیں کہ اب غربت اور جہالت کی تاریکی ختم ہو جائے گی،بس اب ہماری "عبادتِ نیم شب" کا صِلہ ملنے کو ہے لیکن ہماری مناجتیں شاید قبولیت والے آسمان کا رستہ ہی بھول گئی ہیں کہ وہ کبھی بار آوری کی چوکھٹ عبور نہیں کر پاتیں۔ معروف کالم نگار"اوریا مقبول جان" کے کالمز پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ہمارا تو رستہ ہی کوئی اور ہے ۔غیروں کی پیروی ہمیں اس منزل تک کبھی پہنچا ہی نہیں سکتی ،جس کے ہم طالب ہیں۔میں نے اِس کالم میں دنیا کے تین بڑے نظاموں کا اِسلامی نظام سے موازنہ کیا تھا۔یہ اب آپ پر ہے کہ آپ اسے کس حد تک درخورِ اعتنا گردانتے ہیں۔یہ کالم ایک برس قبل ہفت روزہ "طلبِ صادق" میں شائع ہوا تھا۔
No comments:
Post a Comment