Tuesday, 29 April 2014

مجموعی اور ذاتی اہداف

نوجوان خاتون نے پوچھا: ’’اگر یہ طریقہ کبھی بھی کارگر ثابت نہ ہوتا تو پھر تم کیا کرتے؟‘‘ پیٹریکا نے مسکراتے ہوئے کہا:’’پھر ہم اس وقت تیسرا طریقہ آزماتے، ہم اس کے متعلق تمہیں بعد میں بتائیں گے۔‘‘ نوجوان خاتون نے کہا : ’’بہت خوب! اگر یہ ’’مجموعی ہدف‘‘ تھا تو پھر ’’ذاتی ہدف‘‘ کون سا ہے، اس کے لیے بھی کوئی مثال دو!‘‘ بل کی ماں نے جواب دیا: ’’اس کے متعلق ہم بل سے پوچھتے ہیں، جب سے ہم نے اس کے لیے تصویریں بنائیں۔ اس وقت سے اب تک وہ کوئی بڑا ہوگیا ہے۔‘‘ اب اس نے نوجوان خاتون سے معذرت چاہی اور اپنے بچے کی طرف متوجہ ہوگئی۔ بارہ سالہ لڑکے نے’’ہیلو‘‘ کہا اور ملاقاتی خاتون کو اپنے اہداف و مقاصد کی فہرست تھما دی۔ یہ فہرست دو اہداف پر مشتمل تھی: -1میں سخت محنت کرکے 150 ڈالر کماؤں گا اور 2 فروری کو سکول کی طرف سے تقریحی دورے پرجاؤں گا۔ -2میں ہر روز کم از کم تیس منٹ ریاضی کا مضمون پڑھ کر آیندہ امتحان میں B گریڈ حاصل کروں گا۔‘‘ ملاقاتی خاتون کے لڑکے سے کہا:’’جب تم اپنے اہداف تحریر کر لیتے ہو تو تمہیں یہ طریقہ کیسا معلوم ہوتا ہے؟‘‘ لڑکے نے جواب دیا:’’شروع میں یہ طریقہ مجھے پسند نہیں تھا۔ یہ مجھے وقت کا ضیاع معلوم ہوتا تھا، لیکن جب بھی میرے دل میں کوئی خواہش پیدا ہوتی ہے تو میں یہ خواہش تحریر کر لیتا ہوں۔‘‘ نوجوان خاتون نے پوچھا:’’اب تمہیں یہ طریقہ کیوں اچھا محسوس ہوتا ہے؟‘‘لڑکے نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگا:’’کیونکہ اس طریقے کے ذریعے میں اپنے مقصد اور خواہش کے حصول کے زیادہ نزدیک ہو جاتا ہوں!‘‘ اب لڑکا اور ملاقاتی خاتون، باہم گفتگو کرنے لگے تھے، اپنی یہ گفتگو انہیں بہت پسند آ رہی تھی۔ بعدازاں، اس لڑکے نے نوجوان خاتون سے معذرت چاہی اور رخصت ہوگیا۔ اب نوجوان خاتون، لڑکے کی ماں کی طرف مڑی اور کہنے لگی:’’مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ حالانکہ آپ سب اپنے سب اہداف و مقاصد پہلے ہی حاصل کر چکی ہیں، پھر انہیں آپ کیوں لکھتے ہیں؟‘‘ لڑکے کی ماں نے جواب دیا : ’’یاد رکھو! میں نے یہ کہا کہ اہداف و مقاصد وہ خواہشات ہیں جن کی ہم تکمیل چاہتے ہیں۔ ہمارے گھرانے کا معمول یہ ہے کہ ہم پہلے ہی اپنے تخیل وتصور کے ذریعے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم اپنے یہ اہداف و مقاصد پہلے ہی حاصل کر چکے ہیں۔ جب ہم اپنے یہ اہداف و مقاصد لکھ لیتے ہیں تو ہم یہ محسوس کرتے ہیں جیسے ہم انہیں پہلے ہی حاصل کر چکے ہیں۔ یہ ایک ایسا کلیدی اور مفید طریقہ ہے جسے کامیاب لوگ زندگیوں میں استعمال کرتے ہیں، اور اب ہمیں بھی معلوم ہو چکا ہے کہ یہ طریقہ بہت ہی کارگر اور مفید ہے۔ اکثر اوقات ہم اپنے زیادہ تر اہداف حاصل کر لیتے ہیں۔‘‘ نوجوان خاتون نے کہا: ’’اب میں یہ دیکھتی ہوں کہ کیا میں اس کے متعلق سمجھ چکی ہوں۔ تم اپنی خواہشات اور مقاصد تحریر کر لیتی ہو اور یہ محسوس کر لیتی ہو کہ تم یہ مقاصد حاصل کر چکی ہو۔ اگر تم یہی طریقہ اختیار کرتی ہو تو پھر تم ان کو حقیقی شکل میں ڈھالنے کے لیے کون سا خاص طریقہ اختیار کرتی ہو، اور پھر ان مقاصد کے حصول کے لیے تاریخ بھی مقرر کر لیتی ہو اور پھر تم اکثر ان مقاصد کا جائزہ لیتی رہتی ہو!‘‘ پیٹریکا نے جواب دیا: ’’بالکل درست، ہم اپنے ادراک و احساس کے ذریعے جو کچھ اکثر دیکھتے ہیں، اسے ہم تحریر کر لیتے ہیں اور باقاعدگی کے ساتھ جائزہ لیتے رہتے ہیں، اور جائزے کا یہ عمل ہم جس قدر کثرت سے انجام دیتے ہیں، اس قدر تیزی سے ہم یہ مقاصد حاصل کرنے کے قریب ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت ایک معاشرے کی مدد اور معاونت کرنے کے لیے ہم ایک دوسرے کی ’’مقاصد کی کاپی‘‘ اپنے پاس رکھتے ہیں!‘‘نوجوان خاتون نے کہا: ’’کیا اس طرح کاغذی کارروائی کا بہت زیادہ استعمال نہیں ہوتا؟‘‘ پیٹریکا نے زور دیتے ہوئے کہا: ’’نہیں، ایسا قطعی نہیں ہے۔ جس طرح میری والدہ نے مجھے بہت دفعہ کہا تھا کہ جب میں بڑی ہو رہی تھی بلاشبہ اس دوران، ایک خاص مقصد ہمارے سامنے آ جاتا ہے، تو پھر ہم اس مقصد کو اپنے’’فوری ہدف‘‘ کے طور پر مقرر کر لیتے ہیں، لیکن یہ صرف کاغذ کا ایک ہی صفحہ ہوتا ہے۔‘‘
 (سپینسر جانسن کی کتاب ’’ون منٹ مدر‘‘ سے ماخوذ)

No comments:

Post a Comment