عام سی خواہش کہ تھیٹر جائے بغیر نئی فلم دیکھی جائے۔ ڈی وی ڈی خریدے بغیر کسی نئی ویڈیو گیم سے لطف اندوز ہوا جائے یا پھرکسی بھی نئی البم کی لانچنگ سے قبل ہی میوزک سے لطف اندوز ہوا جائے۔ تو ایسا پائیریسی سے ممکن ہوتا ہے لیکن اس بددیانتی سے آرٹ کی موت واقع ہو رہی ہے۔ وہ آرٹ جو ہماری زندگیوں کو حیران کن بنا دیتا ہے چند روپے بچانے کیلئے ہم اسے دفن کردیتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کن چیزوں کی پائیریسی یعنی چربہ سازی ہوتی ہے۔
1- فلم، ٹی وی شو، ویڈیوز:
انٹرنیٹ کے اس دور میں یہ عام سی بات ہوگئی ہے کہ ادھر کوئی نئی فلم ریلیز ہوئی اور اس کے چند گھنٹوں بعد انٹرنیٹ کی کسی ویب سائٹ پر یہ لکھا ملتا ہے کہ ’’ڈاؤن لوڈ مووی‘‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ ہاں یہ ممکن ہے اور پائیریسی کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ اب ذرا اس باریک نکتے پر غور فرمائیں۔ ایک فلمی یونٹ جس میں کتنے لوگ اپنے خاندانوں کی روزی روٹی کا سامان کماتے ہیں جب سالوں کی محنت کے بعد اپنی فلم ریلیز کرتا ہے تو اسے توقع ہوتی ہے کہ شائقین کی بڑی تعداد تھیٹر کا رخ کرے گی اور اس کے کام کو خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ بزنس بھی دے گی۔ لیکن آن لائن مووی ہونے پر شائقین سینما گھروں کا رخ نہیں کرتے جس کا نقصان فلمی یونٹ کو تو ہوتا ہی ہے اور پھر وہ یونٹ دوبارہ فلم بنانے کا رسک نہیں لیتا۔ لہٰذا آرٹ کو تو ان شائقین نے اپنے ہاتھوں سے دفنا دیا جو پائیریسی فلم دیکھتے ہیں۔ اس ضمن میں جتنے مرضی قانون بنالیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہاں البتہ اگر فلم بین کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہو جائے تو وہ کوئی بھی فلم، ٹی وی شو یا ویڈیو انٹرنیٹ پر دیکھنے کی بجائے سینما یا تھیٹر کا رخ کرئے۔ یہی تبدیلی ٹیکنالوجی کی اس لعنت سے نجات دلا سکے گی جسے پائیریسی کہا جاتا ہے۔
2-گانے اور میوزک فائلز:
دوسرے نمبر پر گانے چوری ہوتے ہیں۔ اس میں بھی وہی دکھ پنہاں ہے جو فلم میکرز کو ہوتا ہے۔ ایک گانا یا البم ابھی گلوکار اور اس کی پروڈکشن کمپنی لانچ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے اوردوسری طرف شائقین اس گانے یا البم کو ’’ڈاؤن لوڈ‘‘ پر سن کر محظوظ ہو رہی ہے تو بتائیے کہ وہ فنکار نیا گانا اور البم کیونکر بنائے گا۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ نیا فنکار اپنی جائیداد بیچ کر اپنی پروڈکٹ تیار کرواتا ہے اور اس امید سے مارکیٹ کا رخ کرتا ہے کہ اسے منافع سمیت شہرت ملے گی لیکن اس کے خواب ادھورے ہی رہ جاتے ہیں کیونکہ گانا تو انٹرنیٹ پردستیاب ہو چکا ہوتا ہے۔
3-سافٹ ویئر:
تقریباً دس سال قبل جنوبی افریقہ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی تھی۔ ایک شام اس کے کھلاڑی شاپنگ کیلئے نکلے تو لاہور کی معروف مارکیٹ ہال روڈ چلے گئے یہاں کھلاڑیوں نے سینکڑوں کی تعداد میں سی ڈیز خریدیں۔ استفسار پر پتہ چلا کہ یہاںسی ڈی ایسے ہے جیسے مفت ہو جبکہ ان کے ملک میں سینکڑوں ڈالر خرچ کرکے بھی اتنی سی ڈیز نہ مل سکیں۔ اصل بات یہ تھی کہ ہمارے یہاں ایک ماسٹر کاپی سے لاکھوں کاپیاں بنا کر مارکیٹ میں پھینک دی جاتی ہیں جبکہ کاپی رائٹ ایکٹ کے ذریعے ایسے عمل کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ آج بھی آپ کسی سافٹ ویئر کی سی ڈی یا ڈی وی ڈی باہر کے کسی ملک سے منگوائیں تو سینکڑوں ڈالرز میں ملے گی جبکہ پاکستان میں صرف پچاس روپے میں سافٹ ویئر دستیاب ہوتا ہے۔ سافٹ ویئر پروڈکٹ ہے جو بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر کاپی ہو کر فروخت ہوتا ہے اور سافٹ ویئر کمپنیوں کو اربوں کا نقصان پہنچاتا ہے۔
4- کتابیں:
کتاب بینی ایک مہذب مشغلہ تھا لیکن افسوس کہ انٹرنیٹ کی آمد سے یہ شوق ماند پڑتا چلا گیا اب اکثر یہ ہوتا ہے کہ دو دن بعد امتحان ہے اور مارکیٹ سے کتابیں دستیاب نہیں تو طالب علم چپکے سے انٹرنیٹ کی ای بکس میں سے مطلوبہ عنوان ڈائون لوڈ کرکے اپنا کام چلاتے ہیں۔ اس طرح اکثر یہ پڑھا جاتا ہے کہ اردو بازار میں دکان پر چھاپہ مار کر بغیر اجازت کے غیرقانونی طور پر چھپنے والی ہزاروں کتابیں برآمد کرلی گئیں۔ یہ بھی پائیریسی کی ایک قسم ہے ۔انٹرنیٹ پراس کا آغاز بھی اس طرح سے ہوا تھا کہ انفرادی طور پر کچھ لوگوں نے کتابوں کے اقتباسات سکین کرکے اپ لوڈ کرنا شروع کر دیئے اور نتیجتاً آج کتابوں کی کتابیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ اس کا نقصان پبلشرز کو ہو رہا ہے اور اس نقصان کو پورا کرنے کیلئے وہ غیر معیاری کتابیں چھاپنے سے نہیں چوکتے۔
5-ہارڈویئر:
اگر کوئی کسی کمپنی سے لیپ ٹاپ 750 ڈالر میں خریدتا ہے اور ویسا ہی لیپ ٹاپ کسی راہ چلتے سے 600 ڈالر میں خریدئے تو دونوں میں کیا فرق ہوگا۔ دونوں کی برانڈ شکل اوراستعداد سب ایک سی ہوگی لیکن فرق ہارڈویئر کا ہوگا۔ مقامی اور راہ چلتے دکاندار سے خریدا جانے والا لیپ ٹاپ ایسا ہوگا جس کا ہارڈویئر پائیریسی کے زمرے میں آئے گا اب اس لاپروائی کا نتیجہ دیکھیں کمپنی کا ڈیلر جب اپنی پروڈکٹ فروخت کرے گا تو وہ تمام قوانین کی پاسداری کرکے ڈیوٹیز بھی دے گا اور چیز کی ورائٹی بھی لیکن اس کے برعکس دوسرا مقامی دکاندار ہارڈ ویئر کاپی کریگا اور تمام تر ٹیکس اور ڈیوٹیز بچا کر اپنے ملک کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ ہارڈویئر ایکسل یو ایس بی اور دیگر کمپیوٹر کے پرزہ جات کی پائیریسی روکنے کا ایک ہی حل ہے کہ ایسی پروڈکٹس کمپنی کے نمائندے یا شو روم سے خریدی جائیں۔
6- موبائل فون:
پہلے پہل تو یہ لطیفے ہی لگے کہ سادہ لوح لوگ موبائل مارکیٹ میں کسی جعلساز کے ہتھے چڑھ گئے اور نئے موبائل انتہائی سستے داموں خریدکر پٹ گئے۔ ہوتا یہ تھا کہ کوئی شخص موبائل خریدنے گیا تو جعلساز نے اسے باتوں میں پھنسا کر سستاموبائل دے کر پیسے بٹور لئے۔ گاہک نے جب گھر جا کوموبائل میں سم لگانا چاہی تو پتہ چلا کہ وہ تو ڈمی موبائل ہے اس طرح آپ دیکھیں کہ دنیا کی مسند کمپنیوں کے موبائل چائینہ موبائل کے نام سے سرعام بکتے ہیں اس سے بدترین مثال پائیریسی کی کوئی دوسری کیا ہو سکتی ہے۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں زیادہ موبائل میڈان چائنہ ہوتے ہیں۔
7- نوادرات:
دنیا میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جسے نوادرات جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ وہ دنیا کے مختلف کونوں سے جا کر پرانی سے پرانی اشیاء ڈھونڈ کر اپنے خزانے کا حصہ بناتے ہیں۔ ان کے شوق کے پیش نظر کئی لوگ جعلی اشیاء کی نوادرات بنا کر بیچ دیتے ہیں جو کہ بددیانتی کی انتہاء ہے۔ یہ کام بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ دیکھیں تاجدار برطانیہ نے ہندوستانی راج کے دوران یہاں سے کوہ نور ہیرا اپنے ملک منتقل کر دیا تھا جس کے دعویٰ میں آج بھارت واویلا بھی کر رہا ہے۔ ہندوستان وہ ملک ہے جہاں سے پوری دنیا کو نوادرات سمگل کی جاتی ہیں۔
8- کھانے پینے کی اشیاء:
دنیا میں کروڑوں انسان ہجرت کرتے ہیں۔ ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہوتے ہیں یہ سفر زیادہ تر ملازمت کے سلسلے میں کیا جاتا ہے وہ لوگ جو مستقل لمبے عرصے کے لئے کسی دوسرے ملک رہائش پذیر ہوتے ہیں انہیں سب سے زیادہ مشکل کھانے پینے میں آتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ اپنے وطن کے کھانوں کی تراکیب اور جزائے ترکیبی ساتھ لے جاتے ہیں۔ مختلف حکومتوں کی طرف سے عائد پابندیوں کے باوجود کھانے پینے کی اشیاء نہ صرف سمگل ہوتی ہیں بلکہ یہ پائیریسی کے زمرے میں بھی آتی ہیں۔
9- ڈیزائن:
ٹریڈ مارک انڈسٹری کا ایک اہم فیکٹر ہوتا ہے۔ ہر برانڈ اپنے ٹریڈ مارک اور ڈیزائننگ سے اپنی پروڈکٹ مارکیٹ میں متعارف کرواتا ہے۔ لیکن دنیا میں ان برانڈز کی کاپی ہر ملک میں ہوتی ہے اور بڑے پیمانے پر جعلسازی کا کاروبار چلایا جاتا ہے۔ ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے۔ کہ وہ غیر ملکی ڈیزائننگ کے کپڑے گھڑیاں اور دیگر اشیاء استعمال کرے لیکن گرانی کی وجہ سے برانڈ خریدنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ راڈو گھڑی یا رولیکس گھڑی ہر کوئی تو نہیں خرید سکتا لیکن شوق کی تکمیل میں ویسے ہی ڈیزائن کی گھڑی سڑک کے فٹ پاتھ پر خوانچہ فروش اسے دوچار سوروپوں میں بیچتا نظر آتا ہے اور لوگ خریدتے بھی ہیں۔
تحریر:عبدالستار ہاشمیبعنوان :چربہ سازی شوق کی تسکین کرتی ہیں؟
بشکریہ: روزنامہ دُنیا
No comments:
Post a Comment