اعلیٰ سوچ کے حامل افراد نے اپنے ذہن کی تربیت اس نہج پر کی ہوتی ہے کہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ کیا ہے بلکہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ اس کو کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اس بات کی ہم دو مثالیں پیش کرتے ہیں: -۱ آنکھوں والے اندھے ،دودھ والے کا معاملہ: یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ لوگ کبھی کبھی اتنے اندھے کیوں ہو جاتے ہیں۔چند سال پہلے کی بات ہے کہ ایک نوجوان دودھ فروش دودھ بیچنے ہمارے گھر کے دروازے پر آیا۔ میں نے اس سے کہا کہ ہم پہلے ہی ایک شخص سے دودھ لے رہے ہیں اور اس سے مطمئن بھی ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ والے گھر والوں سے پوچھ لیں شاید انہیں دودھ کی ضرورت ہے۔ اس نے کہا جناب میں تو ان سے پہلے ہی پوچھ چکا ہوں۔ وہ تو ہر دو دن بعد ایک کواٹر دودھ لیتے ہیں مجھے بھلا اس سے کیا فائدہ ہو گا۔ میں نے اس سے کہا شاید آپ نے اس بات کا جائزہ نہیں لیا کہ آئندہ انہیں زیادہ مقدارمیں دودھ کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ وہ نوجوان کچھ حیران ہوا اور پھر کہنے لگا واقعی میں اندھا ہوا کہ اس پر غور ہی نہیں کیا۔آج وہ دو دن کیلئے ایک پاؤ دودھ خریدنے والا خاندان روزانہ سات لیٹر دودھ خرید رہا ہے۔ پہلے اس خاندان کے ہاں صرف ایک بچہ تھا، اب اس بچے کے دو بھائی اور ایک بہن اور ہیں اور شاید چند دنوں میں ان کے ہاں ایک اوربچہ آنے والا ہے۔ بعض اوقات ہم اندھے ہو جاتے ہیں۔ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ حال کیسا ہے اوریہ نہیں دیکھتے کہ مستقبل کیا ہو گا؟ جیسا کہ سکول کا استا دایک لڑکے کے بارے میں کہتا ہے کہ جمی تو بدتمیز ہے، جنگلی ہے، کند ذہن ہے اور اس طرح جمی کی نشوونما نہیں ہونے پاتی لیکن وہ استاد جو کہتا ہے کہ جمی جیسا اب ہے بدل سکتا ہے اور بہتر ہو سکتا ہے اور اچھا طالب علم بن سکتا ہے تو جمی مستقبل میں اچھا بن جاتا ہے۔ -۲ کیا آپ نے کبھی اپنی اہمیت کا یقین کیا ہے؟ میں ایک تربیتی پروگرام کر رہا تھا۔ پروگرام کے بعد ایک نوجوان میرے پاس آیا، اس نے پوچھا کہ کیا وہ مجھ سے کچھ گفتگو کر سکتا ہے؟ میں نے اندازہ لگایا کہ اس نوجوان کی عمر 26 سال کے قریب ہے لیکن اس میں ابھی تک بچپنا بھی ہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ بلوغت کی ابتداء میں ہی اسے کسی بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے کوشس کر رہا ہے۔ کافی پینے کے دوران ہی میں اس کے تکنیکی مسئلے کے بارے میں معلوم کر چکا تھا۔پھر ہمارے گفتگو کا موضوع بدل گیا اورہم بات کرنے لگے کہ جو لوگ کسی جسمانی کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں کیا مستقبل میں بھی وہ کمزوری ان کے ساتھ دیتی ہے؟ نوجوان نے بہت ٹھوس جواب دیا تھا۔ اس نے کہا: بینک میں میرے پاس دو سو سے بھی کم ڈالر ہیں، میں کلرک ہوں اس لیے تنخواہ بھی زیادہ نہیں، او رذمے داریاں بھی زیادہ نہیں ہیں۔ میری کار 4 سال پرانی ہے۔ میں ایک بوسیدہ سے فلیٹ میں دوسری منزل پر رہتا ہوں۔پروفیسر صاحب! میں نہیں جانتا کہ مجھے کس چیز نے جامد کر رکھا ہے۔ یہ ان صاحب کا اپنے خلاف سازشی سا بیان تھا۔ میں نے اسے بات جاری رکھنے کا کہا۔ اس نے کہا، میں نے لوگوں کا تجزیہ کیا ہے بہت سے لوگوں کا وہ جیسے ہیں ایسے ہی کھٹن زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اپنے مستقبل کی طرف بھی نہیں دیکھتے۔ میرے پڑوسی ہی کی مثال لے لیجیے۔ اس کی نوکری بھی بہت ہی کم تنخواہ والی ہے۔ وہ بھی ایسے ہی زندگی کو گھسیٹ رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ غریب ہے اور غریب ہی رہے گا۔ وہ اپنے بوسیدہ سے فلیٹ میں بہت ہی سزاوار زندگی گزار رہا ہے بلکہ ایسے ہی گزارتا رہے گا۔ میں بھی اگر اپنی زندگی کی طرف دیکھوں تو مجھے بھی کم آمدنی، سستی خوراک، بوسیدہ فلیٹ اور پرانی کار کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا بلکہ مایوسی ہوتی ہے۔لیکن پھر میں نے سوچنا شروع کیا کہ مجھے ایک کلرک نہیں بلکہ افسر ہونا چاہیے بوسیدہ فلیٹ نہیں شاندار مکان ہونا چاہیے۔ میں نے جب اس طرح سوچنا شروع کیا تو میں محسوس کرنے لگا کہ میں بہت بڑا ہوں اور مجھے سوچنا بھی بڑا ہی چاہیے۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ میں اپنا بڑاپن ثابت کروں گا۔
ڈاکٹر ڈیوڈ جوزف شیوارڈز کی کتاب "بڑی سوچ،بڑی کامیابی" سے اقتباس
بشکریہ : دُنیا نیوز
No comments:
Post a Comment