Tuesday, 6 May 2014

اَمن کی تصویر

ایک بادشاہ نے اپنی سلطنت میں اعلان کروایا کہ ملک میں تصویری مقابلہ کروایا جائے گااور عنوان’امن کی تصویر ‘ ہو گا۔ جو مصوّر سب سے اچھی تصویر بنائے گا، اُسے قیمتی انعامات و اِکرام سے نوازا جائے گا۔ اس مقابلے میں ملک کے بیشتر مصوروں نے حصہ لیا اور اپنی اپنی سمجھ کے مطابق ’امن کی تصویر‘بنائی۔ جب تمام تصاویر نمائش کے لیے پیش کی گئیں تو بادشاہ نے خود تمام تصویروں کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ تمام تصاویر میں سے بادشاہ کو صرف دو تصویریں پسند آئیں لیکن انعام کے لیے توصرف ایک تصویر کو چننا تھا۔ پہلی تصویر ایک پرُسکون جھیل کی تھی۔ اس جھیل کو ایک آئینہ کی صورت میں پیش کیا گیا تھا۔ اس جھیل کو چاروں جانب سے ہرے بھرے پہاڑوں نے گھیر رکھا تھا۔ اوپر کھلا نیلا آسمان دکھایا گیا تھا جس میں روئی کے گالوں کی مانند بادل نظر آ رہے تھے۔ اس تصویر کو دیکھنے والا ہر شخص یہ ہی کہتا کہ یہ تصویر امن و سکون کی صحیح تشبیہ ہو سکتی ہے۔ یقینا بادشاہ اسے ہی منتخب کریں گے اور انعام اِسی مصور کو ملے گا۔ دوسری تصویر میں بھی پہاڑ تھے مگر خشک چٹان اور کھردرے، بے رونق پہاڑ دکھائے گئے تھے۔ ان پہاڑوں کے اوپر بہت غضب ناک قسم کا آسمان دکھایا گیا تھا جو شدید بارش برسا رہا تھا۔بادلوں کی گرج چمک نے اسے مزید دہشت ناک بنا دیا تھا۔ اِن پہاڑوں کے ایک جانب بہت زور و شور سے آبشار بہہ رہی تھی اور کہیں سے بھی سکون نہیں دکھائی دیتا تھا۔ لیکن اس شور مچاتی آبشار کے پیچھے چٹان میں چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں جہاں  ایک پرندے نے اپنا گھونسلہ بنا رکھا تھا اور اس سنگلاخ چٹانوں، دہشت ناک آسمان اور شور مچاتی آبشار کے بیچ وہ پرندہ نہایت آرام و سکون سے اپنے گھونسلے میں بیٹھا تھا۔ آپ کے خیال میں انعام کس تصویر کو ملنا چاہیے؟بادشاہ نے دوسری تصویر کو انعام کے لیے چُنا۔ کیونکہ بادشاہ کے مطابق امن و سکون وہ نہیں جو حالات کے ساتھ ہو (مطلب جہاں پریشانی نہ ہو، مشکلات نہ ہوں، کوئی مسائل نہ ہوں) بلکہ امن و سکون وہ ہے کہ جہاں یہ تمام پریشانیاں اور مشکلات ہوں اور ان سب کے درمیان رہ کر بھی آپ کے دل میں سکون ہو۔زندگی کٹھن ہے یہ ہمیشہ منصفانہ نہیں ہوتی۔ زندگی ہمیشہ ویسی نہیں ہوتی جیسی ہم چاہتے ہیں کہ جس میں کوئی دکھ تکلیف نہ ہو، کام نہ ہوں، ہر وقت خوشی و اطمینان ہو، سکون ہو۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔کسی اُستاد کا قول ہے : دُنیا ہمیں خوش کرنے کیلئے خود کو کبھی وقف نہیں کرے گی۔ ہم تعمیری انداز اپنا کر اِن تمام درد و کرب اور مصائب کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ مزا تو تب ہے کہ ہم زندگی کی ان سب حقیقتوں کو قبول کریں اور اپنی صورت حال مزید بہتر بنائیں۔ اگر زندگی منصفانہ نہیں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ اچھی، سودمند اور مسرت بخش نہیں ہو سکتی۔ ان تمام مسائل کے ساتھ رہتے ہوئے بھرپور زندگی گزارنا ہی صحیح زندگی ہے۔ سکون و امن درحقیقت اندرونی کیفیت کا نام ہے۔

ماخوذ: زندگی کے اَنمول سبق تحریر: بینش جمیل

بشکریہ: دُنیا نیوز 

No comments:

Post a Comment