عربی زبان میں تخلیق کیا گیا ادب، چھٹی صدی تا عصر حاضر۔ اس ادب کی جڑیں جزیرہ نما عرب کے نیم خانہ بدوش قبیلوں میں ہیں۔ اس کی اشاعت ساتویں اور آٹھویں صدی میں ظہور اسلام کے ساتھ قریبی طور پر منسلک ہے۔ عربی زبان اور عربی ثقافت کا اثر اسلام کے ساتھ ساتھ سارے مشرق وسطیٰ اور حتیٰ کہ افغانستان، سپین اور شمالی افریقہ کے اٹلانٹک ساحل تک بھی پہنچا۔ آج کا عربی ادب جغرافیائی و ملکی حدود سے ماورا ہے اور اس میں متعدد اصناف شامل ہیں۔ اہم تاریخی واقعات نے عربی ادب کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ساتویں اور آٹھویں صدی میں عرب-اسلامی فتوحات نے ایک وسیع کثیر القومی سلطنت تشکیل دی جس میں دانش وروں اور محققین نے فروغ پایا۔ اس سلطنت کے اندر تخلیق کیا گیا ادب موضوع اور ندرت کے اعتبار سے قرون وسطیٰ کے یورپی ادب پر فوقیت رکھتا ہے۔ عرب معاشرے میں کوئی سائنس دان یا مؤرخین موجود نہیں تھے، لیکن فصیح البیانی، سلاست اور خوب صورت شعر گوئی کا شوق اپنی انتہاؤں کو چھو رہا تھا۔ عرب بدو کی زبان عبرانی سے کافی ملتی جلتی تھی۔ عربوں نے اپنی زبان کی قدامت اور فصاحت پر فخر کیا، قلم یا زبان کے ذریعہ اس کی نغمگی کو فروغ دیا، اور وجد کے عالم میں شاعروں کو سنا جو صحرائی خیموں یا تیوہاروں کے موقعہ پر اُنہیں غیر مختتم قافیوں اور سروں میں اپنے سورماوں، قبیلوں اور بادشاہوں کی جنگوں اور محبتوں کی داستانیں سنایا کرتے تھے۔ قرون وسطیٰ کا عربی ادب شاعری اور نثر کا ایک وسیع ذخیرہ سمیٹے ہوئے ہے۔ ان تصنیفات میں قصے، کہانیاں، فلسفیانہ مقالے، دینیاتی تحریریں، سوانحات، ادبی تنقید اور جغرافیہ و تاریخ وغیرہ پر تحریریں شامل ہیں۔ اس عہد کا آغاز عروج اسلام کے ساتھ ہوا اور مغرب کا اثر غالب آ جانے تک قائم رہا۔ عربی زبان اور اسے مؤثر انداز میں استعمال کرنے کا فن قرون وسطیٰ میں منضبط ہوا۔ اس دور کی نثری تحریروں میں ’’ادب‘‘ روایت وجۂ افتخار تھی۔ اس صنف نے حکایاتی نثر کو دیگر عناصر کے ساتھ ملایا۔ ادب پاروں کو تعلیمی اور تفریحی دونوں مقاصد کے تحت لکھا گیا۔ ادب کے مجموعوں میں ایک اہم موضوع ادبی کردار تھے، جیسے بن بلائے مہمان، کنجوس، ذہین لوگ اور دیوانے۔ قرون وسطیٰ کے ادب کی نمائندہ روشنیوں میں الجاحظ، ابن قتیبہ اور ابن عبد ربیہی شامل تھے۔ نویں صدی کے محقق اور عالم الجاحظ کو عرب ادب ونثر کا عظیم ترین سخن نواز خیال کیا جاتا ہے۔ بخیل لوگوں کے متعلق کہانیوں پر مشتمل ’’کتاب البخلأ‘‘ ایک کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ قرون وسطیٰ کے اسلامی دانشور اور علما حیرت انگیز طور پر نہایت متنوع موضوعات سے شناسا تھے۔ اس کی ایک مثال بارہویں صدی کا اندلسی طبیب اور فلسفی ابن طفیل ہے۔ اس نے ’’حئی ابن یقظان‘‘ نامی ایک تمثیل لکھی جس میں ایک الگ تھلگ صحرائی جزیرے پر تنہا پرورش پانے والا بچہ صرف منطق استعمال کرنے کے ذریعہ سچائی تک پہنچتا ہے۔ محققین کی رائے میں عربی ثقافت پندرہویں اور سولہویں صدیوں کے دوران انحطاط کا شکار ہو گئی تھی، تاہم اس دور میں ہمیں انحطاط کی بجائے ایک ذوق کی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ چودہویں صدی میں ہی نثر ایک مختلف انداز اختیار کر چکی تھی۔ مثلاً شمالی افریقہ کے ابن بطوطہ نے ساری اسلامی دنیا میں اپنے اسفار کا حال لکھا اور چودہویں صدی میں شمالی افریقہ کے ہی مؤرخ ابن خلدون نے تاریخ فلسفہ کی ایک اہم ترین کتاب لکھی۔ پندرہویں صدی کے محقق جلال الدین سیوطی کی تصانیف میں دینیاتی مسائل سے لے کر ادبی موضوعات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ 1798ء میں فرانسیسی جرنیل نیپولین بوناپارٹ اور اس کی فوج نے مصر پر حملہ کیا۔ اس واقعہ نے عربی ادب میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ مغربی استبدادیت اپنے ساتھ نئی اصناف بھی لائی۔ سب سے اہم بات یہ کہ بعد ازاں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں خود مختار ممالک بننے سے عربی ادبی منظر میں کئی قسم کے نکتہ ہائے نظر مقبول ہونے لگے۔ ادبی دنیا میں دوبارہ گہما گہمی شروع ہوئی، اگرچہ زیادہ تر اہل ِقلم پرانی اصناف ہی اپنائے رہے۔ مثلاً لبنان کے ناسف الیزدی نے قرون وسطیٰ کی طرز پر مقامۃ لکھی۔ ان مقامۃ نے بیسویں صدی کے نثر نگاروں کے ادبی تجربات کے لیے مثالی نمونے کا کام دیا، جیسے محمد المویلہی، احمد شوقی اور حافظ ابراہیم مصری۔ انجام کار عربی شاعروں نے روایتی اصناف اور موضوعات سے تعلق توڑا اور آزاد نظم جیسی نئی اصناف سخن کی جانب دیکھا۔ عراقی شاعرہ نازک الملائکہ 1940-50ء کی دہائی میں آزاد نظم کے رجحان کے ساتھ پوری طرح منسلک نظر آتی ہے۔ جدید عربی شاعری کئی رجحانات اور مذہبی تجربات کا ملغوبہ ہے۔ صالح عبدالصبور مصری، ایڈونس شامی اور محمود درویش فلسطینی جیسے شعرا نے شاعری کو جدید عربی ادب کا ایک بنیادی اور جاندار حصہ بنے رہنے میں مدد دی۔ جدید عہد میں نثری روایت بھی گہرے بدلاؤ کے عمل سے گزری۔ نثری روایت بھی اساسی تبدیلیوں کے عمل سے گزری ہے۔ ڈرامہ نے اپنی علیحدہ جگہ بنائی اور وہ محض مقامۃ سے ہی ماخوذ نہیں۔ معاصر عربی تھیئٹر سے منسلک مصنف مصر کا توفیق الحاکم ہے۔ اس نے اپنے کھیل ’’شہرزاد‘‘ (1934ء) میں الف لیلہ و لیلہ کی مشہور کہانی پیش کی۔ مصری ادیب حسین ہیکل کے ’’زینب‘‘ (1913ء) کو عربی کا پہلا ناول مانا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے دوران افسانے کے ساتھ ساتھ ناول بھی اہمیت اختیار کرتا گیا۔ مصر کے نجیب محفوظ کو 1988ء میں نوبیل انعام برائے ادب دیا گیا۔ اس کا ’’الثلثیہ‘‘ جس میں ایک مصری خاندان کی آزمائشوں کا حال لکھا ہے، باعث شہرت بنا۔ یہ الثلثیہ تین حصوں پر مشتمل ہے: ’’بیان القصرین‘‘ (1956ء)؛ ’’قصر الشوق‘‘ (1956ء) اور ’’السکریہ‘‘ (1957ء)۔ مصر ادریسی کو عربی افسانے کا گرو تسلیم کیا جاتا ہے۔ فلسطینی ادیب ایمائل حبیبی اپنے ناول ’’الواقعی الغریب فی اختفا سعید ابی النہس المتشاعل‘‘ (1974ء) کے لیے مشہور ہے۔ وہ اسرائیل میں آباد فلسطینیوں کی حالت زار بیان کرنے کے لیے مزاح اور طنز کا استعمال کرتا ہے۔ عورتوں نے بھی عربی ادب میں اپنی موجودگی منوائی ہے۔ لبنانی خانہ جنگی (1975-80ء) کے بارے میں لبنانی مصنفہ ہنان الشیخ کی تخلیقات میں ’’حکایت زہرا‘‘ (1980ء) شامل ہے۔ شاید سب سے زیادہ ممتاز اور واشگاف عرب مصنفہ نول ال سعدوی ہے جس کی زبردست نثر نے بہت سے مداحوں کے ساتھ ساتھ دشمن بھی پیدا کیے۔ عرب دنیا میں اسلامی رجحان کو تقویت ملنے سے عربی ادب نے ایک نیا رنگ اختیار کرنا شروع کیا ہے۔مسلم محمود کے ناول بیسٹ سیلرز ہیں۔ مسلمان سیاسی کارکن خاتون زینب الغزالی کی یاد داشتیں ’’ایام من حیاتی‘‘ (1977ء) کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ عربی ادبی روایت کی قوائیت مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے دارالحکومت شہروں کی گلیوں میں چلتے ہوئے بک شاپس پر نظر ڈالنے سے پتا چلتی ہے۔ لندن، پیرس اور دیگر اہم شہروں کے بک سٹورز بھی اس قسم کا تاثر دیتے ہیں۔
انسائیکلو پیڈیاادبیاتِ عالم سے ماخوذ
تحریر: یاسر جواد
بشکریہ: دُنیا نیوز
No comments:
Post a Comment