لوگوں کو جیتنے کے جتنے بھی شارٹ کٹس ہیں وہ سب بے کار ہیں اگرچہ بسااوقات وہ وقتی نتائج دے دیتے ہیں۔ اس حوالے سے خوشامد ایک ایسا ہی شارٹ کٹ آلہ ہے جو بعض لوگ اپنے بڑوں کا دل جیتنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ قیمتی تحفے دینا اور تگڑے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے اعزاز میں پارٹیاں دینا بھی انہی طریقوں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ یہ طریقے بھی وقتی طور پر کار گر رہتے ہیں مگر ان طریقوں سے پائیدار بنیادوں پر تعلق استوار نہیں ہوتے۔ کیونکہ یہ رشتے مادی مفادات کی کوکھ کے جنے ہوتے ہیں اس لیے مفادات پورے ہوتے ہی ہواہو جاتے ہیں۔ رشتے جذبوں سے جنم لیتے ہیں۔ جذبے جو انسان کے اندر سے پھوٹنے والے حسین باغ ہیں جبکہ مفاد پرستی کے کنویں میں جنم لینے والے تھوہر کے پودوں کی لیپاپوتی کر کے پائیدار رشتے نہیں بنائے جا سکتے۔ لوگوں کے ساتھ طویل المیعاد تعلقات کو ممکن بنانے کے لیے خلوص کی، شخصی توانائی کی اور مہذب رویوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ان چیزوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا ہے۔ ہر کوئی اس پر بھروسہ کرتا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ ایک نیکو کار حیات فوری نتائج نہ دے مگر ایسی زندگی ایک نہ ایک دن کامیاب و کامران رہتی ہے۔ سماج میں جو بھی شخص عزت بنانے کا متمنی ہوا سے چاہیے کہ وہ دوسروں کے حوالے سے اچھا سوچے، دوسروںکا خیال رکھے۔ رحم، مہربانی، لوگوں کو سمجھنا، سخاوت اور محبت وہ خاصیتیں ہیں جو کسی کے کردار کو مضبوط بناتی ہیں۔ خیرسگالی کا جو جذبہ ان نیکیوں کے بطن سے پھوٹتا ہے وہ ایک ابدی خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ لوگوں کے لیے خیر سگالی کے جذبے سے معمورشخص اپنے اندر وہ لازوال طاقت محسوس کرتا ہے جو دیگر دنیاوی طاقتوں کی طرح کسی حادثے کے ذریعے چھن جانے کے قابل نہیں ہوتی۔ جب اس طاقت کو لوگوں کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو یہ طاقت اور بڑھتی ہے اور افزائش ہوتی ہے۔ اور جب اس طاقت کو صرف اپنی مسرت کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ کم ہوتی ہے، محدود ہوتی جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے جب یہ ختم ہو جاتی ہے۔ خود منحصر ہونا اس طاقت کو کہیں بڑھاوا دیتا ہے۔ تمام لوگ اس شخصیت کو پسند کرتے ہیں جو اس طاقت کو لوگوں کے بہتری کے لیے استعمال کرنا جانتا ہو۔
اچھے تعلقات کے رہنما اصول سے اقتباس
تحریر: پریم پی بھالا
بشکریہ: دُنیا نیوز
No comments:
Post a Comment