چند دن گزرے، مجھے احساس ہوا کہ میں کمپیوٹر کے سامنے زیادہ وقت گزارنے لگی ہوں۔ دوسروں سے میری ملاقاتیں کانفرنس روم، ہوائی اڈے کے لائونج یا کافی شاپ میں ہی ہوتیں۔ تب بھی ساری گفتگو بیٹھے بیٹھے ہو جاتی۔ رفتہ رفتہ میں غور کرنے لگی کہ آج کے بیشتر انسان روزانہ اپنا بیشتر وقت بیٹھے ہوئے گزارتے ہیں۔ اکثر مرد و زن دن بھر تقریباً ساڑھے نو گھنٹے بیٹھ کر گزارتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی قسم کی سرگرمی انجام دیں۔ دوسری طرف سوتے ہوئے ان کے صرف سات، ساڑھے سات گھنٹے بسر ہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ بیٹھنا انسانی سرشت میں اتنا دخیل ہو چکا کہ اب محسوس ہی نہیں ہوتا، ہم طویل عرصہ بیٹھے گزارتے ہیں۔ ہم اس سچائی سے بھی بے خبر ہو چکے کہ حد سے زیادہ بیٹھنا غیر فطری بلکہ ایک قسم کا خلل ہے۔ میں تو یہ کہوں گی کہ جو لڑکے لڑکیاں کمپیوٹر یا ٹی وی کے سامنے بیٹھے زندگی گزار رہے ہیں، ان کے لیے بیٹھنا نشہ بن چکا یا اس کو ان کی سگریٹ نوشی سمجھیے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مسلسل نہ بیٹھیے، بلکہ گاہے گاہے چلیے۔ زیادہ دیر بیٹھنا صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایک گھنٹہ مسلسل بیٹھنے کے بعد انسان میں ان خامروں (Enzymes) کی افزائش ’’90 فیصد‘‘ تک کم ہو جاتی ہے، جو چربی جلاتے ہیں۔ مزید دیر بیٹھا جائے تو ہمارا نظام استحالہ سست پڑ جاتا ہے۔ یہ عمل ہمارے اچھے کولیسٹرول (ایچ، ڈی، ایل) کو متاثر کرتا ہے۔ جدید طبی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ انسان محترک نہ رہے، تو امراض قلب، ذیابیطس اور سینے کے سرطان کا نشانہ بن سکتا ہے۔ زیادہ بیٹھنا، موٹاپے کو بھی جنم دیتا ہے۔ آج پوری دنیا میں فربہی کے باعث لاکھوں لوگ سالانہ چل بستے ہیں۔ جب کہ سگریٹ نوشی کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد کہیں کم ہے۔ گزشتہ سال سڈنی یونیورسٹی کے محققوں نے ان 9ہزار آسٹریلوی مرد وزن پہ تحقیق کی جو طویل عرصہ ٹی وی دیکھتے یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھتے تھے۔انکشاف ہوا کہ جو انسان روزانہ ایک گھنٹے سے زیادہ ٹی وی دیکھے تو فی زائد گھنٹہ اس کی زندگی کے 3 تا 5 منٹ کم ہو جاتے ہیں۔ تحقیق سے وابستہ ایک ڈاکٹر نے تو بیان دیا کہ حد سے زیادہ بیٹھنا موت کو دعوت دینا ہے۔ اس کے نزدیک بیٹھنے میں طوالت کا مطلب ہے: روزانہ 9 گھنٹے بیٹھنا۔ ٭انقلابی تبدیلی:کئی مرد و زن کا کہنا ہے کہ انھیں ورزش کرنے حتیٰ کہ چلنے کے لیے وقت نہیں ملتا۔ میں بھی اسی مسئلے سے دوچار تھی۔ آخر میں نے اس مشکل کا حل نکال ہی لیا۔ میں نے یہ کیا کہ چلتے پھرتے دوستوں سے ملاقاتیں کرنے لگی اور یہ کوشش کی کہ دفتری میٹنگز بھی چلتے پھرتے انجام پائیں۔ ظاہر ہے، کئی دوستوں اور دفتری ساتھیوں نے چلتے ہوئے باتیں کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن میں نے انھیں منانے کی سعی جاری رکھی اور کئی ایک کو منا بھی لیا۔ دراصل اسی ’’چلائومیٹنگز‘‘ کے ذریعے جلد ہی مجھے فوائد ملنے لگے۔سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہوا کہ مجھے پتا چلا، کافی شاپ یا میز کرسی پر بیٹھے ہونے کی نسبت شانہ بشانہ چلنے والے کی باتیں میں زیادہ بہتر انداز میں سن سکتی ہوں۔ دراصل اس قربت میں کوئی اَسرار ہے کہ انسان خودبخود ساتھی کی مدد سے مسائل کے حل ڈھونڈ نکالتا ہے۔ دوسرے چلنے کے سادہ عمل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ موبائل فون عموماً بند کر دیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں یکسوئی سے کسی کی باتیں سننا نایاب بات بن چکی۔ یوں مجھے موقع ملتا ہے کہ ساتھی یا ساتھیوں پر بھرپور توجہ دے سکوں۔جب کسی کے ساتھ پہلی بار چلنے کی یہ انوکھی میٹنگ اختتام کو پہنچے تو میرا ساتھی عموماً یہی کہتا ہے ’’میں نے طویل عرصے بعد اتنا لطف اٹھایا اور مجھے خوب تخلیقی وقت ملا۔‘‘ اس دادوتحسین کی وجہ یہ ہے کہ سائنس دریافت کر چکی کہ چلنا انسانی دماغ کی صحت کیلئے مفید ہے۔جس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان فطرت کے قریب ہوتا ہے۔ وہ ہر موسم سے لطف اٹھاتا ہے۔ اس طرح انسان اپنی دنیا سے باخبر بھی رہتا ہے اور اس سے نہیں کٹتا۔ لہٰذا آج ہی اسی وقت کرسی یا صوفے کو چھوڑیے اور باہر جا کر چلیے پھریے۔ اس بظاہر معمولی عمل سے آپ بہت خوشی پائیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔
تحریر:نیلوفر مرچنٹ
ترجمہ: نصرت نوید
بشکریہ: دُنیا نیوز
No comments:
Post a Comment