Friday, 9 May 2014

آنگن ٹیڑھا؟؟؟

ہماری قوم کے بے پناہ مسائل کی وجوہات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ایک یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ ہمارے ہاں کوئی بھی اُٹھ کر اگر کچھ بھی کہہ دے تو اُسے بھی دو چار حواری مل ہی جاتے ہیں۔ یقیناََ ہر انسان کا اپنا مفاد ہوتاہے اور کئی ایک تو اپنے مفاد کو ملکی مفاد کے لفافے میں لپیٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن ہنسی تب آتی ہے جب آپ خود بھی دوڑ میں شریک ہوں لیکن دوڑ ہارنے پہ انتظامیہ کو کو سنا شروع کردیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ نظر آیا  وقار یونس کو پی سی بی کی طرف ہیڈ کوچ بنائے جانے کے بعد۔ہیڈ کوچ کے عہد ےکی  دوڑ میں شامل سابق اوپننگ بیٹسمین محسن حسن خان تو اس قدر سیخ پا ہوئے کہ انہوں نے پریس کانفرنس میں بورڈ ،انتظامی طریقہ کار اور نومنتخب کوچ کے خوب لتے لیے اور اسی پہ بس نہیں کیا بلکہ بورڈ کو عدالت میں گھسیٹنے کا عندیہ بھی دے دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر انہیں بیٹنگ کوچ کی پیشکش کی گئی تووہ ضرور قبول کریں گے لیکن   اپنے سے جونیئر کھلاڑی کے ماتحت کام کرنا پسند نہیں کریں گے۔ محسن حسن خان نے یہ بھی کہا کہ محمد عامر کو دوسرا موقع ہر گز نہیں ملنا چاہیے کیونکہ اس سے پہلے محمد آصف کو دوسرا موقع دیا گیا جس کا نتیجہ اُس سے بڑی غلطی کی صورت میں سامنے آیا۔ محمد عامر کے بارے میں سابق اوپننگ بیٹسمین کا یہ رویہ ایک مخصوص طبقہ فکر کی سوچ کو ظاہر کرتا ہے  جس کے مخالف ایک اور نسبتاََ بڑے طبقے کاخیال ہے کہ محمد عامر کو معصومیت ،بچپنے اور بھولپن میں کی گئی غلطی کی اتنی بڑی سزا ہرگز نہیں ملنی چاہیے بلکہ اُسے دوسرا موقع دیا جانا چاہیے۔اب ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ محسن حسن خان کو یہ سب کچھ ہیڈ کوچ کی درخواست رد ہونے کے بعد ہی کیوں یاد آیا؟ کیا اس سے پہلے کیا محمد عامر کی رہائی کے لیے کی جانے والی کوششیں شرمناک نہیں تھیں؟کیا ان کو کوچ نہ بنا کر ہی ملکی کرکٹ کو نقصان پہنچانے کی سازش رچائی جارہی ہے؟ کہیں محسن حسن خان کی یہ الزام تراشی بھی دراصل عہدے کے حصول کی کوئی کوشش تو نہیں کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا تو یہ وطیرہ رہاہی ہے کہ اکثر الزامات لگانے والوں کا منہ اعلیٰ عہدوں اور بھاری معاوضوں سے بند کردیا جاتاہے۔یا پھر یہ سمجھا جائے کہ بے وقت کی یہ راگنی انگور کھٹے ہیں یا پھر آنگن ٹیڑھا ہی کے مصداق ہے؟؟؟ 
تحریر: اسد محمود

No comments:

Post a Comment