خوشبوؤں کا ہاتھ ہواؤں کے ہاتھ میں دینے والی اور رنگ برنگے پھولوں کی پنکھڑیاں چننے والی صبا رخ شاعرہ پروین شاکر کا
ایک خوبصورت شعر ہے :
گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو
کوئی وجود محبت کا استعارہ ہو
ایک ایسا پھول جو صناع ازل کی رنگا رنگی سے مرصع ہونے کے ساتھ ساتھ ہمہ صفات بھی ہے اس کا نام گلاب ہے ایک ایسا پھول کہ جسے دیکھ کر رخِ محبوب کا مغالطہ و مبالغہ ہونے لگے اسے گلاب کہتے ہیں۔ گلاب قدیم زمانے سے شعراء اور ادیبوں کا من پسند پھول رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گل رخ محبوب کا ذکر گلاب کے بغیر ممکن ہی نہیں، کسی بھی زبان یا خطے کی شاعری گلاب کی تشبیہات اور استعارات سے بھری پڑی ہے شاعری میں جس قدر گلاب کا ذکر ہے اتنا کسی دوسرے پھول کا نہیں۔تہذیب و تمدن کے آغازسے لے کر آج دن تک گلاب محبت کے استعارے کے طور پر مستعمل چلا آرہا ہے۔ 600 سال قبل مسیح میں یونان کی معروف شاعرہ سیفو نے اپنی شاعری میں گلاب کو پھولوں کی ملکہ کا خطاب دیاتھا۔ 400سال قبل مسیح میں ایک یونانی فلاسفر نے’’ ہسٹری آف پلانٹس‘ ‘کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی، جس میں گلاب کی کاشت کا تفصیل سے ذکر ملتا ہے۔ اسی کتاب میں گلاب کو بیج کے بجائے قلم سے کاشت کرنے پر زور دیا گیاہے، آج پوری دنیا میں زیادہ تر گلاب اسی طریقہ سے کاشت کیا جا رہا ہے۔ علم نباتات کے مطابق گلاب کے پودے کا خاندان Roseceae کہلاتا ہے۔ سیب، ناشپاتی، آڑو، آلو بخارا، خوبانی، بادام، چیری اور رس بھری اس خاندان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ اٹلی کے ایک قدیم شہر سائی بیرس میں گلاب کی خشک پنکھڑیوں سے بستروں کے گدے اور تکیے بھرے جاتے ہیں جو سونے والے کو راحت خوشبو اور فرحت مہیا کرتے ہیں۔ ترک اور رومن اپنے اکثر کھانوں پر گلاب کی پتیاں اور عرق گلاب چھڑکتے ہیں۔ ترکی میں کسی خاص مہمان کا استقبال بیرونی دروازے پر عرق گلاب چھڑک کر کیا جاتا ہے ہندوستان میں اس رسم کو تیل ڈھالنا کہتے ہیں۔گلاب کینیڈا کی کچھ ریاستوں اورامریکہ کے علاوہ برطانیہ کا بھی قومی پھول ہے۔ انگریزوں کی روایات اور تاریخ سے گلاب کا بہت گہرا تعلق ہے۔ ماضی میں اکثر برطانوی بادشاہوں کے تمغوں پر نقش کیا جاتا رہا ہے۔ دنیا میں گلاب کی تقریباً دس ہزار اقسام پائی جاتی ہیںگلاب کی وہ بنیادی اقسام جنہیں گلاب کے آباؤاجداد میں شمار کیا جاتا ہے ان کی تعداد160 ہے۔ اس تعداد میں سے12 اقسام قدرتی طور پر پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ جنگلی گلاب کا پھول عام طور پر پانچ پنکھڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ایک ٹہنی پر پتوں کی تعداد پانچ یا سات ہوتی ہے۔ چین میں پائی جانے والی ایک جنگلی قسم کی پنکھڑیوں کی تعداد چار ہوتی ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میکسیکو میں پائے جانے والے ایک جنگلی گلاب کے پھول کی صرف تین پنکھڑیاں ہوتی ہیں۔ آسٹریا میں پایا جانے والا جنگلی گلاب جس کا نام کاپرروز ہے، اس کی پنکھڑیوں کاسیدھے رخ سے رنگ نارنجی سرخ اور پشت کی طرف سے پیلا ہوتا ہے۔ گلاب کے جنگلی پودے کا قد 1ٹ سے لے کر 40فٹ تک ہوتا ہے۔ گلاب کی چند اقسام بغیر کانٹوں کے بھی ہوتی ہیں۔ ماہرین نباتات کے مطابق گلاب کی ٹہنی پر نکلنے والے کانٹے دراصل کانٹے نہیں بلکہ گلاب کی ٹہنی کی اندرونی سخت لکڑی ہی کا ایک حصہ ہوتے ہیں گلاب کی ایک قسم روزا گالیکا کی پنکھڑیوں کو اگر خشک کر لیا جائے تو پھر بھی وہ تازہ پھولوں ہی کی طرح خوشبو دیتی ہیں۔گلاب میں خوشبو اس کی معراج تصور کی جاتی ہے۔ مشرقی ذوق اور طبع کے مطابق یہ صرف گلاب کے پھولوں پر ہی موقوف نہیں بلکہ یہاں ہر پھول میں مہک کا ہونا لازمی امر خیال کیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ خوشبو دینے والا گلاب ملک شام کے علاقہ دمشق میں پایا جاتا ہے۔ جسے گلاب دمشق کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ گلاب دمشق کو یورپ میں پائی جانے والی بہت سی جدید اقسام کے وجد میںشمار کیا جاتاہے۔ صلیبی جنگوں کے دوران یورپی جنگجو وسط ایشیاء سے جو علم ،ہنر اوردیگر اشیاء یورپ لے کر گئے ان میں سے ایک گلاب دمشق بھی ہے۔ تاہم گلاب کا حقیقی اور آبائی وطن ایران اور چین ہیں۔ انہی دو ممالک سے چل کر گلاب پوری دنیا میں پھیلا ہے۔ گلاب کو حسن و لطافت ، محبت و الفت، بہادری ، شجاعت، رازو نیاز، سادگی و معصومیت اور اتحاد و یگانگت جیسی خوبیوں کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ معانی کے اعتبار سے مصری اسے خاموشی کا مظہر خیال کرتے ہیں ایرانیوں کے نزدیک یہ حسن کی علامت ہے۔ گلاب کا پودا ہمہ صفت موصوف ہونے کے باعث طبی خواص کا بھی حامل ہے۔ کتاب المفردات کے مطابق گلاب مفرح قلب، مقوی اعضائے رئیسہ، اور قابض ہے جبکہ زیادہ مقدار میں دست آورہے۔ اس کے تازہ پھولوں سے گل قند تیار کیا جاتاہے جو قبض رفع کرتا ہے۔ عرق گلاب آنکھوں میں ڈالی جانے والی دواؤں میں استعمال ہوتا ہے۔ایرانیوں نے عرق گلاب کی کشید کے فن کو درجہ کمال پر پہنچایا۔ پھولوں کا ضماد ورم جگر کو تحلیل کرتا ہے۔ گلے کے امراض میں اس کے جوشاندہ سے غرغرے کرواتے ہیں عرق گلاب میں کھرل کیا ہوا سرمہ سوزش چشم کو مفید ہے۔ گلاب کے پھولوں کا زیرہ منہ اور مسوڑھوں سے آنے والے خون کو روکتا ہے۔ پیوندی گلاب کی بعض اقسام کے پھول کی پنکھڑیاں جھڑ جانے کے بعد پیدا ہونے والے ڈوڈے وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیںیورپ میں انہیں جام جیلی اور مارملیڈ بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان ڈوڈوں سے کشید کیے گئے ست سے چائے بنائی جاتی ہے جو صحت بخش اور فرحت و تازگی کا باعث ہے۔بعض اقسام کے ڈوڈے انتہائی چمک دار تیز سرخ یا سبز رنگ کے ہوتے ہیں جنہیں پھولوں کی جگہ گلدانوں میں سجایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر گلاب کی افزائش اور قدردانی کے سلسلہ میں دو مشہور ادارے ہیں پہلا رائل نیشنل روز سوسائٹی لندن اور دوسرا امریکن روز وسائٹی ہے۔یہ دونوں ادارے ہر سال گلاب کی نمائشیں منعقد کرواتے ہیں اور اول آنے والوں کو انعامات سے نوازتے ہیں۔یہ سلسلہ1928ء سے جاری ہے۔ ماڈرن روز نامی ایک کتاب ہر پانچ سال بعد امریکا میں چھپتی ہے ،جس میں گذشتہ پانچ سال میں پیدا ہونے والے گلاب کی تمام اقسام کا ذکر بالتفصیل درج ہوتا ہے۔ رائل نیشنل سوسائٹی لندن ’’دی روز‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی جریدہ بھی جاری کرتی ہے۔ وطن ِعزیز میں جو ادارے گلاب کی ترویج و ترقی میں مصروفِ کار اور کوشاں ہیں ان میں پیکجز لمیٹڈ ،پی آئی آے اور سی ڈی اے اسلام آباد قابلِ ذکر ہیں۔ ہماری زندگی کا کوئی لمحہ خوشی، مسرت اور شادمانی سے آراستہ ہو یا غم و اندوہ سے وابستہ، گلاب ہمارے احساسات و جذبات کے اظہار کے لیے زمانۂ قدیم سے ہمارے ساتھ ساتھ چلا آرہا ہے اور شائد تا ابد موجود رہے گا۔
تحریر:سخی رشید اعوان
بشکریہ: دُنیا نیوز
No comments:
Post a Comment