تھائی لینڈ میں بیتے پندرہ خوشگوار دنوں کی دلچسپ روداد
تھائی لینڈ کے لوگ مسکرانے کے عادی ہیں۔ بات بات پر مسکراتے ہیں۔ آپ سڑک پر چلتے کسی تھائی باشندے سے کسی جگہ کا پتا پوچھیں تو وہ جواب مسکرا دے گا۔ خواہ اُس کو آپ کی بات سمجھ میں آئی ہو یا نہ آئی ہو۔ بنکاک میں سڑک کنارے لگے سٹالز پر سیلز مین سے کسی چیز کی قیمت پوچھیں ،تو فوراً اپنے دانت آپ کو دکھائے گا۔ بعد میں قیمت بتا کر آپ کی مسکراہٹ کا گلا دبا دے گا۔بنکاک کی سڑکوں پر ٹریفک کا بہت رَش ہوتا ہے، لیکن ٹریفک بے ہنگم نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ اگر کسی قوم کی اخلاقی حالت کا اندازہ لگانا ہو تو ان کی ٹریفک کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ تھائی ایک دوسرے کا خیال کرنے والے لوگ نظر آتے ہیں۔ بنکاک میں مختلف رنگوں کی ٹیکسی کاریں سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہیں، تو یوں لگتا ہے کسی چنچل بچے نے رنگ برنگی ٹافیوں کا پیکٹ پھینک دیا ہو اور ٹافیاں جا بجا بکھر گئی ہوں۔ہمارے ہاں سڑک پر ہارن کے علاوہ کچھ اور سْنائی نہیں دیتا، مگر تھائی لینڈ میں ہارن بہت ہی کم سْنائی دیتا ہے۔ گاڑیوں والے پیدل چلنے والوں کا بے حد خیال کرتے ہیں اور اُن کو پہلے سڑک کراس کرنے کا موقع دیتے ہیں اور پیدل چلنے والے بھی بغیر دیکھے سڑک پر ٹہلتے نظر نہیں آتے۔ بے شمار موٹر سائیکل بھی نظر آتے ہیں، جو مرد و خواتین ہیلمٹ پہن کر چلاتے ہیں۔ تھائی لوگ اپنے سر کو اپنے بڑوں کے سر سے نیچا رکھتے ہیں۔ بڑوں کے احترام کرنے کا یہ خوبصورت انداز ہے۔ تھائی لوگ پائوں کو جسم کا حقیر حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پائوں زمین سے تعلق جوڑتے ہیں اور زمین انسانوں کے لیے دْکھوں والی جگہ ہے۔ لہٰذا تھائی لوگ کسی کی طرف پائوں سیدھے کرکے نہیں بیٹھتے۔ تھائی لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو دونوں ہاتھ جوڑ کر تھوڑا سا جھک کر’’Sawadee‘‘ کا لفظ بولتے ہیں،جو بھی بنکاک آتا ہے وہ گرینڈ پیلس ضرور جاتا ہے، اس کے بغیر بنکاک کی سیاحت مکمل نہیں ہوتی۔ ہمارا میزبان ادارہ ہمیں وہاں لے گیا۔ ہمیں وہاں پیلس کے مکمل تعارف پر مبنی پمفلٹ دیے گئے اور ایک خاتون گائیڈ نے محل کے متعلق معلومات دیں۔ محل کی خوبصورتی دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور ہم نے گائیڈ کی مکمل بات بھی نہ سنی اور کیمرے لے کر ٹک ٹک تصویریں بنانے لگے۔ ہر طرف غیر ملکی نظر آر ہے تھے ہر شخص اس شاہکار فن تعمیر کے رنگ دارنمونے کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرتا دِکھائی دے رہا تھا۔ تھائی لینڈ میں ہرطرف رنگ برنگی چیزیں نظر آتی ہیں۔ ہر طرف قوسِ قزح کے رنگ بکھرے ہوتے ہیں۔ گاڑیوں سے لے کر کپڑوں تک، عمارتیں، سڑکیں، لباس، عبادت گاہیں، سکول حتیٰ کہ ہر چیز رنگوں میں نہائی نظر آتی ہے۔ گرینڈ پیلس میں ہر رنگ تھا اور ہر رنگ کے لوگ بھی موجود تھے۔ گولڈن رنگ کی بہتات تھی۔ وہاں موجود گولڈن ٹیمپل کے اندر بھی گئے جہاں اونچے سٹیج پر بْدھا کی مْورت نہایت خوبصورتی سے سجا کر رکھی ہوئی تھی۔ تھائی لوگ اندر جاتے، ہاتھ جوڑ کر نہایت ادب سے دو زانو ہو کر بیٹھ جاتے۔ آنکھیں بند کرتے اور سر جھْکا کر اپنی مرادیں خاموشی سے سناتے اور اُلٹے پائوں چپکے چپکے باہر نکل جاتے۔ ہم بھی چند منٹ کے لیے اندر گئے۔ ہْوکا عالم تھا اور ایک عجیب سا سکون ماحول میں رَچا ہوا تھا۔ دو خواتین ہمارے پاس آئیں، ہمارے ساتھ تصاویربنوائیں اور بتایا کہ اُن کا تعلق روس سے ہے ہم نے پاکستان کا بتایا تو انھوں نے پاکستان کے بارے میں اچھے الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ انھیں جب موقع ملا ،وہ پاکستان کی ضرور سیر کریں گی۔ بنکاک شہر بلند و بالا عمارتوں، ریستورانوں ہوٹلوں، تھائی کھانوں، غیر ملکی سیاحوں اور تھائی کلچر کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اسی لیے بنکاک کے فٹ پاتھوں پر چہل قدمی کرنا بھی ایک شاندار تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ آپ کو یورپ، امریکا، آسٹریلیا اور ایشیا کے لوگ جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ فٹ پاتھ پر چلتے چلتے تین سکھ بھائیوں سے خوب مزے کی گپ شپ ہوئی۔ وہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ اُن کے دادا پاکستان میں بستے تھے۔ بٹوارے میں وہ بھارت چلے گئے ،مگر دل پاکستان میں اپنے گائوں ہی چھوڑ گئے تھے۔ ان کے دادا گائوں میں بیتے دن، بچپن کے دوست اور گائوں کی گلیوں کو اکثر یاد کرتے تھے اور اْن کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے تھے۔ انھوں نے بابا بلھے شاہ اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے پنجابی شعر سنائے۔ انھوں نے بتایا کہ نصرت فتح علی خان، راحت فتح علی خان، مہدی حسن، نور جہاں اور ریشماں کے گانے شوق سے سنتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی دوستی کے متعلق خوب صورت اشعار بھی سنائے اور پھر لوگوں کے ہجوم میں گم ہوگئے۔ بنکاک میںا سکائی ٹرین کا سفر کرنا انتہائی خوب صورت تجربہ ثابت ہوا۔ ہوٹل کے قریبAsok سٹیشن پہنچے۔ سیڑھیوں کے ذریعے اوپر پْل نما ٹریک پر گئے جہاں ٹرین چلتی ہے۔ اوپر ٹرین کا ٹریک ہے اور نیچے سڑک۔ لاکھوں لوگ روزانہ اسکائی ٹرین کا سفر کرتے ہیں۔ہم نے NANA سٹیشن تک جانے کا کرایہ دیکھا ،جو کہ 20بھات فی آدمی تھا۔ مشین میں20بھات کے سِکے ڈالے اور مشین نے ہمیں ٹکٹ دے دیا۔ الیکٹرک گیٹ سے داخل ہو کر ٹرین تک جانا پڑتا ہے۔ گیٹ کے دراز میں ٹکٹ ڈالا تو گیٹ نے اندر جانے دیا۔ دروازے کے اندرونی طرف سے ٹکٹ پھر باہر آگیا، جو ہم نے جیب میں ڈال لیا۔ ٹرین فوراً ہی آگئی۔ دروازے کھلتے ہیں لوگ جلدی جلدی اْترتے ہیں۔ سوار ہونے والے سوار ہوتے ہیں اور گاڑی روانہ ہوجاتی ہے۔ٹرین کے ڈبے لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ دھکم پیل ہرگز نہ تھی۔ تو تو میں میں نہ ہونے کی وجہ سے ایک بار لگا کہ یہ تو ٹرین کا سفر ہی نہیں ۔ سکائی ٹرین سے شہر کا نظارہ شاندار تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اگلا آنے والا سٹیشن تھائی اور انگریزی زبانوں میں انائونس ہوتا تھا۔ ہمارا سٹیشن آیا تو ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اْتر گئے اور یہ عارضی سا سفر کتنا جلدی تمام ہوگیا تھا۔ سٹیشن سے باہر جاتے ہوئے پھر گیٹ میں ٹکٹ ڈالا،گیٹ کھل گیا اور اس بار ٹکٹ گیٹ کے اندر ہی رہ گیا۔ بنکاک کے قریب ترینPattayaکا ساحل ہے۔ ساحل دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔ تقریباً ڈیڑھ سو کلو میٹر کا فاصلہ لطیفوں، شعروں اور قہقہوں میں پلک جھپکتے ہی گزر گیا۔ وہاں پہنچتے ہی بریانی، سموسے اور چِپس اْڑائے۔ Pattayaشہر کی گلیوں سے گزرتے ہوئے ساحل تک آئے۔ پتایا ساحل اُردو اور انگریزی دونوں کی’ب‘ BAYتھا۔ درختوں میں بے کراں نیلے پانی کا نظارہ مسحور کْن تھا۔ ساحل پر سر سبز و شاداب ناریل کے درخت بہت بھلے لگ رہے تھے اور پانی کے قریب قریب رنگ برنگی چھتریوں کی دور تک پھیلی قطاریں سماں باندھ رہی تھیں۔ شہر کی بلند عمارتیں درختوں کی چوٹیوں سے سر نکالے سمندر میںجھانکتی نظر آرہی تھیں۔ سمندر میں کشتیوں کا ہجوم تھا۔ ساحل کنارے چھتریوں کے نیچے اور پانی کے ساتھ ساتھ انسانوں کا میلہ لگا تھا۔ پورا ماحول اُداسی سے ناآشنا تھا۔ ہم بھی پانی میں نہائے، اُچھلے کودے، بھاگے دوڑے۔ بچپن کے دن یاد آگئے۔ جب ہم ٹیوب ویل پر نہاتے تھے۔ چھوٹے سے حوض میں نہاتے ہوئے جو خوشی نصیب ہوتی تھی ،وہ اتنا بڑا سمندر بھی نہ دے سکا۔ جب نہا کر تھک گئے تو ساحل کی ریت پر چلنا شروع کر دیا۔ ساحل کی خوبصورتی سے سب سے زیادہ متاثر ہمارے دوست پیٹر ہوئے تھے۔ ان کی آنکھیں پہلے سے زیاد کھْل گئی تھیں اور دو گھنٹوں میں شاید ہی دو بار آنکھیں جھپکائی ہوں گی۔ یوں لگتا تھا کہ وہ سمندر کو (ساحل پر پھرتے لوگوں سمیت) اپنی آنکھوں میں اتارنا چاہتے تھے۔ ہمارے دوست وسیم کے شاعرانہ تخیلات نے انگڑائی لی۔ انھوں نے چند خوب صورت اشعار سنائے اور پھر چپ سادھ گئے۔ ان کے خیالوں کے پنچھی ستاروں سے بھی کہیں پرے اُڑ رہے تھے۔ پندرہ روز برق رفتاری سے بیت گئے۔ بوجھل قدموں سے ہم نے بیگ اُٹھائے اور گاڑی میں سوار ہو کر ’’سنوارنا بھْومی‘‘ ائیر پورٹ کی راہ لی۔ ہم بنکاک کی سڑکوں، عمارتوں اور لوگوں کو آخری بار دیکھ رہے تھے۔ ائیر پورٹ میں داخل ہوتے ہوئے مْڑ کر دیکھا تو ہماری کورس کوآرڈینیٹر خاتون اور گاڑی کا ڈرائیور ہمیں الوداع کہنے کے لیے ہاتھ لہراتے ہوئے مْسکرا رہے تھے۔ اس مسکراہٹ میں وہ خوشی نہ تھی ،جو پچھلے پندرہ دن میں نظر آئی تھی۔ ہم جانتے تھے کہ اس مسکراہٹ میں ہمارے لیے بے شمار دعائیں اور نیک خواہشات تھیں اور ہمارے جانے کا ہلکا سا دْکھ بھی شامل تھا۔ ہم نے بھی ہاتھ لہرا کر الوداع کہا اور دل سے دْعا نکلی کہ اس مسکراہٹوں کے دیس کے باسی ہمیشہ پھولوں کی طرح مْسکراتے رہیں!!!
تحریر:احمد نعیم چشتی
بشکریہ:دُنیا نیوز
No comments:
Post a Comment