Thursday, 29 May 2014

پاک بھارت دوستی کیسے ممکن ہے؟

دو دن پہلے ایک نوجوان نے مجھے ایک ای میل بھیجی۔ رومن اردو میں لکھی طویل تحریر تھی۔ خاصی مغز ماری کے بعد میں پڑھنے میں کامیاب ہوا۔ مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ رومن اردو میں اتنی محنت کی کیا ضرورت ہے۔ آج کل اردو کے اتنے سافٹ ویئرز آ چکے ہیں، جن کے ذریعے نہایت دلکش فونٹ یا خطاطی میں اردو لکھی جا سکتی ہے۔ میرے جیسے بد خط افراد کے لیے تو اردو ٹائپنگ نعمت ثابت ہوئی ہے۔ خیر اس نوجوان نے اپنی ای میل میں دو بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے۔ انہوں نے پوچھا کہ آخر پاکستان اور بھارت کے مابین دوستی کیوں قائم نہیں ہو سکتی؟ اس میں کون سی ایسی رکاوٹیں ہیں جو عبور نہیں کی جا سکتیں؟ ان کا دوسرا اعتراض پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر ہے کہ وہ آخر ہر اہم ملکی ایشو میں انوالو کیوں ہوتی ہے؟ پچھلے چند دنوں میں سوشل میڈیا پر بھی اس سے ملتے جلتے مباحث دیکھتا رہا۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کے سنجیدہ سوالات پر کھل کر بحث نہیں ہوتی، کوئی بات کرے بھی تو طعنے‘ تشنیع اور الزامات غالب آ جاتے ہیں۔ بلیم گیم کھیلنا انٹیلی جنشیا کا کام نہیں، ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے وہ مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کیوں کشیدہ رہتے ہیں، دوستی کا تعلق کس لیے قائم نہیں ہو پاتا اور اس خطے میں پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے کی وجوہ کیا ہیں؟ ان تینوں سوالات کا ہمارے ہاں ایک ہی سادہ جواب تراش لیا جاتا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایسا نہیں ہونے دیتی۔ ہمارے لیفٹ کے دوست عرصے سے یہ راگ الاپتے رہے ہیں، لبرل لیفٹ اور سیکولر حلقے بھی اس حوالے سے ان کے ہمنوا ہیں۔ اب فوج سے ناراض رائیٹ ونگ کا ایک خاص عنصر بھی ہر مسئلے کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر تھوپ دیتا ہے۔ الزام در الزام سے مگر اصل مسئلہ ختم نہیں ہو جاتا، وہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ ایک سادہ سوال ہے کہ آخر اسٹیبلشمنٹ ایسا کیوں کرے گی؟ ہمارے لیفٹسٹ اور لبرل دانشور اس کا اتنا ہی سادہ جواب دیتے ہیں کہ اگر پاکستان اور بھارت میں دوستی ہو جائے تو دونوں طرف اتنی بڑی فوج کی ضرورت نہیں رہے گی، دفاع کا بجٹ کم ہو جائے گا اور وردی والوں کے اللے تللے ختم ہو جائیں گے، اسی لیے وہ مخالفت کرتے ہیں۔ یہ جواب سن کر مجھے ہمیشہ ہنسی آتی ہے۔ صورتحال کبھی اتنی سادہ نہیں ہوتی۔ کیا یورپی یونین بن جانے کے بعد انگلینڈ اور فرانس نے اپنی فوجیں ختم کر دی ہیں؟ کیا وہاں پر دفاع کی ذمہ داریاں پولیس نے سنبھال لی ہیں؟ چین جیسے ملک کو کہاں سے حملے کا خطرہ ہے؟ وہ آخر اپنے دفاع پر کیوں خرچ کرتا ہے اور اتنی بڑی فوج رکھی ہوئی ہے؟ روس جیسے ملک نے سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ، سائز اتنا کم ہونے اور امریکہ کے ساتھ سرد جنگ ختم ہو جانے کے بعد فوجی اور دفاعی بجٹ کو ختم کیوں نہیںکر دیا؟ بھارت نے پاکستان سے تین گنا زیادہ فوج کیوں رکھی ہوئی ہے؟ پاکستان سے خطرہ ہے تو اتنی ہی یا زیادہ سے زیادہ ڈبل فوج رکھ لیتا، پاکستان سے پانچ سات گنا زیادہ وہ دفاع پر خرچ کر رہا ہے اور لمبی پرواز والے طیاروں، دور تک مار کرنے والے میزائلوں پر وہ کیوں کام کر رہا ہے؟ ممالک اپنی جغرافیائی اور سٹریٹجک پوزیشن کے مطابق ہی اپنی دفاعی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ناروے، سویڈن اور ڈنمارک جیسے فلاحی سکینڈے نیوین ممالک اگر جنوبی ایشیا میں ہوتے تو ہم دیکھتے کہ ان کے بجٹ کا بھی پندرہ بیس فیصد دفاع پر خرچ ہو رہا ہے۔ جیو پولیٹیکل پوزیشن ہر ملک کا اثاثہ ہوتی ہے، کبھی بلائے جان بھی۔ اس پوزیشن کو مگر کوئی ملک نظرانداز نہیں کر سکتا‘ جس کے پڑوس میں پچھلے پینتیس برسوں سے جنگ جاری ہو، جہاں اتنا بڑا وار تھیٹر ہو، وہاں پر کوئی لاتعلق کیسے رہ سکتا ہے؟ ترک لیڈر طیب اردوان نے شروع میں خاصی کوشش کی کہ اپنی خارجہ پالیسی میں ایسی تبدیلیاں لائیں جن سے ان کی دفاعی ضروریات کم ہو سکیں۔ انہوں نے ایران کے ساتھ معاملات بہتر کیے، یونان کے ساتھ جاری کشیدگی کم کی، روس کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات قائم کیے، یہ چاہا کہ کامیاب خارجہ پالیسی کے ذریعے اپنی دفاعی بوجھ کو کم کیا جائے، مگر وہ بھی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو گئے۔ ترکی نے تمام تر امریکی دبائو کے باوجود عراق میں الجھنے سے گریز کیا، شام کے مسئلے پر وہ لاتعلق نہ رہ سکے۔ ان کے اسرائیل کے ساتھ معاملات بگڑے، اخوان المسلمون کی حمایت پر مصر کے ساتھ تعلقات خراب کیے اور شام والے معاملے پر وہ اینٹی ایران بلاک میں رہنے پر مجبور ہو گیا۔ یہ ہوتا ہے حالات اور جیو پولیٹیکل پوزیشن کا جبر۔
پاکستان اور بھارت کے مابین پائیدار امن اور دوستی کے لیے ضروری ہے کہ ان کے درمیان حائل جنگلے پر لگے تالے کی چابیاں 
ڈھونڈی جائیں۔ ایک نہیں بلکہ تین چابیاں درکار ہوں گی۔ سب تو پہلے بھارت کو اس خطے میں اپنے اگریسو ایجنڈے سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق آگے بڑھتا جائے اور کوئی اسے کائونٹر نہ کرے۔ پاکستانی منصوبہ سازوں یا اسٹیبلشمنٹ کے لاشعور میں واضح طور پر عدم تحفظ موجود ہے۔ یہ بے سبب نہیں۔ پاکستان بھارت کے ہاتھوںدو ٹکڑے ہو چکا ہے۔ مشرقی پاکستان میں کی گئی غلطیوں کا بہت تذکرہ ہوتا ہے مگر ایک اہم فیکٹر شاید دانستہ طور پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بے شک ہم نے وہاں پہاڑ جیسی غلطیاں کیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سب کے باوجود مشرقی پاکستان کو الگ کر لینا مکتی باہنی کے بس کی بات نہ تھی۔ یہ بھارت کا فل سکیل لیول پر فوجی حملہ تھا، جس کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ ہوا۔ عدم تحفظ کی لہر اس کے بعد سے کسی نہ کسی سطح پر اسلام آباد میں گردش کرتی رہی۔ بھٹو صاحب جیسے سویلین لیڈر کو بھی ایٹم بم بنانے کے لیے آخری حد تک جانا پڑا۔
بھارتی ایجنڈے کو کائونٹر کرنا اور کم سے کم دفاع کی بنیادی سطح پر رہنا پاکستان کی مجبوری ہے۔ اس عدم تحفظ سے نکالنا بھارت کی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کر لے، ایسی تبدیلی جو صرف سطح پر نہیں بلکہ گہرائی تک محسوس ہو، اس کے اثرات اسلام آباد میں خود بخود پڑیں گے۔ جب افغانستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں غیر ضروری طور پر قونصلیٹ کھولے جائیں، بلوچ شدت پسندوں کو کھلم کھلا فنانس کیا جائے، فاٹا کی عسکریت پسندی کو بڑھانے میں حصہ ڈالا جائے، اندرون سندھ شدت پسند گروپ بنانے کی کوششیں جاری رکھی جائیں تو اس کا فطری اور منطقی ردعمل بھی ہو گا۔ دوسرا اہم فیکٹر افغانستان ہے۔ بھارت سے افغانستان تک کا راستہ پاکستان سے گزر کر جاتا ہے۔ جب بھی بھارت پاکستان کو بائی پاس کر کے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی کوشش کرے گا، مسائل پیدا ہوں گے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ پاکستان نیپال میں اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کر ڈالے اور ساتھ ہی اپنا جاسوسی نیٹ ورک قائم کرے تو بھارت پہلے ہی دن چیخ اٹھے گا۔ بھارتی ماہرین کو اس کا اندازہ ہے کہ افغانستان میں ان کا ایجنڈا پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے مگر وہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس جانب پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تیسرا اور اہم ترین فیکٹر پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود بنیادی ایشوز ہیں۔ کشمیر اور پانی کا مسئلہ کلیدی نوعیت کا ہے مگر سیاچن، سرکریک وغیرہ کے تنازعات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان بنیادی تنازعات کو کسی نہ کسی انداز سے حل کرنا ہو گا۔ ان کی کنجی بھی بھارت ہی کے ہاتھ میں ہے۔ بھارت اس ریجن میں امن قائم کر کے، اکنامک زون بنانا چاہتا ہے، اس سے اسے بے پناہ فوائد حاصل ہوں گے، پاکستان کو بھی کیک میں کچھ نہ کچھ شیئر ملے گا، مگر یہ سب اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب بھارتی سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ اپنی بلند و بالا انا کی دیوار نیچے کرے اور پاکستان کو مناسب سپیس دے۔ اگلے روز ایک بھارتی صحافی نے لکھا کہ بھارت کو بگ برادر کی بجائے ایلڈر برادر کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہی حل ہے۔ سلگتے انگاروں کو قالین کے نیچے پھینکنے سے وہ بجھ نہیں جائیں گے، قالین ہی کہیں نہ کہیں سے جلے گا۔ یہ بات اسلام آباد کی منتخب سیاسی حکومت اور ہمارے لبرل لکھاریوں کو بھی سمجھنا ہو گی۔ حقائق کا ادراک ہر ایک کو کرنا چاہیے۔

تحریر: رؤف کلاسرا

کافر

دریچے


بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کیے ہوئے۔۔۔

چند دن گزرے، مجھے احساس ہوا کہ میں کمپیوٹر کے سامنے زیادہ وقت گزارنے لگی ہوں۔ دوسروں سے میری ملاقاتیں کانفرنس روم، ہوائی اڈے کے لائونج یا کافی شاپ میں ہی ہوتیں۔ تب بھی ساری گفتگو بیٹھے بیٹھے ہو جاتی۔ رفتہ رفتہ میں غور کرنے لگی کہ آج کے بیشتر انسان روزانہ اپنا بیشتر وقت بیٹھے ہوئے گزارتے ہیں۔ اکثر مرد و زن دن بھر تقریباً ساڑھے نو گھنٹے بیٹھ کر گزارتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی قسم کی سرگرمی انجام دیں۔ دوسری طرف سوتے ہوئے ان کے صرف سات، ساڑھے سات گھنٹے بسر ہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ بیٹھنا انسانی سرشت میں اتنا دخیل ہو چکا کہ اب محسوس ہی نہیں ہوتا، ہم طویل عرصہ بیٹھے گزارتے ہیں۔ ہم اس سچائی سے بھی بے خبر ہو چکے کہ حد سے زیادہ بیٹھنا غیر فطری بلکہ ایک قسم کا خلل ہے۔ میں تو یہ کہوں گی کہ جو لڑکے لڑکیاں کمپیوٹر یا ٹی وی کے سامنے بیٹھے زندگی گزار رہے ہیں، ان کے لیے بیٹھنا نشہ بن چکا یا اس کو ان کی سگریٹ نوشی سمجھیے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مسلسل نہ بیٹھیے، بلکہ گاہے گاہے چلیے۔ زیادہ دیر بیٹھنا صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایک گھنٹہ مسلسل بیٹھنے کے بعد انسان میں ان خامروں (Enzymes) کی افزائش ’’90 فیصد‘‘ تک کم ہو جاتی ہے، جو چربی جلاتے ہیں۔ مزید دیر بیٹھا جائے تو ہمارا نظام استحالہ سست پڑ جاتا ہے۔ یہ عمل ہمارے اچھے کولیسٹرول (ایچ، ڈی، ایل) کو متاثر کرتا ہے۔ جدید طبی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ انسان محترک نہ رہے، تو امراض قلب، ذیابیطس اور سینے کے سرطان کا نشانہ بن سکتا ہے۔ زیادہ بیٹھنا، موٹاپے کو بھی جنم دیتا ہے۔ آج پوری دنیا میں فربہی کے باعث لاکھوں لوگ سالانہ چل بستے ہیں۔ جب کہ سگریٹ نوشی کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد کہیں کم ہے۔ گزشتہ سال سڈنی یونیورسٹی کے محققوں نے ان 9ہزار آسٹریلوی مرد وزن پہ تحقیق کی جو طویل عرصہ ٹی وی دیکھتے یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھتے تھے۔انکشاف ہوا کہ جو انسان روزانہ ایک گھنٹے سے زیادہ ٹی وی دیکھے تو فی زائد گھنٹہ اس کی زندگی کے 3 تا 5 منٹ کم ہو جاتے ہیں۔ تحقیق سے وابستہ ایک ڈاکٹر نے تو بیان دیا کہ حد سے زیادہ بیٹھنا موت کو دعوت دینا ہے۔ اس کے نزدیک بیٹھنے میں طوالت کا مطلب ہے: روزانہ 9 گھنٹے بیٹھنا۔ ٭انقلابی تبدیلی:کئی مرد و زن کا کہنا ہے کہ انھیں ورزش کرنے حتیٰ کہ چلنے کے لیے وقت نہیں ملتا۔ میں بھی اسی مسئلے سے دوچار تھی۔ آخر میں نے اس مشکل کا حل نکال ہی لیا۔ میں نے یہ کیا کہ چلتے پھرتے دوستوں سے ملاقاتیں کرنے لگی اور یہ کوشش کی کہ دفتری میٹنگز بھی چلتے پھرتے انجام پائیں۔ ظاہر ہے، کئی دوستوں اور دفتری ساتھیوں نے چلتے ہوئے باتیں کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن میں نے انھیں منانے کی سعی جاری رکھی اور کئی ایک کو منا بھی لیا۔ دراصل اسی ’’چلائومیٹنگز‘‘ کے ذریعے جلد ہی مجھے فوائد ملنے لگے۔سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہوا کہ مجھے پتا چلا، کافی شاپ یا میز کرسی پر بیٹھے ہونے کی نسبت شانہ بشانہ چلنے والے کی باتیں میں زیادہ بہتر انداز میں سن سکتی ہوں۔ دراصل اس قربت میں کوئی اَسرار ہے کہ انسان خودبخود ساتھی کی مدد سے مسائل کے حل ڈھونڈ نکالتا ہے۔ دوسرے چلنے کے سادہ عمل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ موبائل فون عموماً بند کر دیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں یکسوئی سے کسی کی باتیں سننا نایاب بات بن چکی۔ یوں مجھے موقع ملتا ہے کہ ساتھی یا ساتھیوں پر بھرپور توجہ دے سکوں۔جب کسی کے ساتھ پہلی بار چلنے کی یہ انوکھی میٹنگ اختتام کو پہنچے تو میرا ساتھی عموماً یہی کہتا ہے ’’میں نے طویل عرصے بعد اتنا لطف اٹھایا اور مجھے خوب تخلیقی وقت ملا۔‘‘ اس دادوتحسین کی وجہ یہ ہے کہ سائنس دریافت کر چکی کہ چلنا انسانی دماغ کی صحت کیلئے مفید ہے۔جس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان فطرت کے قریب ہوتا ہے۔ وہ ہر موسم سے لطف اٹھاتا ہے۔ اس طرح انسان اپنی دنیا سے باخبر بھی رہتا ہے اور اس سے نہیں کٹتا۔ لہٰذا آج ہی اسی وقت کرسی یا صوفے کو چھوڑیے اور باہر جا کر چلیے پھریے۔ اس بظاہر معمولی عمل سے آپ بہت خوشی پائیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔ 

تحریر:نیلوفر مرچنٹ

ترجمہ: نصرت نوید

Tuesday, 27 May 2014

اعلیٰ سوچ کے حامل افراد

اعلیٰ سوچ کے حامل افراد نے اپنے ذہن کی تربیت اس نہج پر کی ہوتی ہے کہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ کیا ہے بلکہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ اس کو کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اس بات کی ہم دو مثالیں پیش کرتے ہیں: -۱ آنکھوں والے اندھے ،دودھ والے کا معاملہ: یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ لوگ کبھی کبھی اتنے اندھے کیوں ہو جاتے ہیں۔چند سال پہلے کی بات ہے کہ ایک نوجوان دودھ فروش دودھ بیچنے ہمارے گھر کے دروازے پر آیا۔ میں نے اس سے کہا کہ ہم پہلے ہی ایک شخص سے دودھ لے رہے ہیں اور اس سے مطمئن بھی ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ والے گھر والوں سے پوچھ لیں شاید انہیں دودھ کی ضرورت ہے۔ اس نے کہا جناب میں تو ان سے پہلے ہی پوچھ چکا ہوں۔ وہ تو ہر دو دن بعد ایک کواٹر دودھ لیتے ہیں مجھے بھلا اس سے کیا فائدہ ہو گا۔ میں نے اس سے کہا شاید آپ نے اس بات کا جائزہ نہیں لیا کہ آئندہ انہیں زیادہ مقدارمیں دودھ کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ وہ نوجوان کچھ حیران ہوا اور پھر کہنے لگا واقعی میں اندھا ہوا کہ اس پر غور ہی نہیں کیا۔آج وہ دو دن کیلئے ایک پاؤ دودھ خریدنے والا خاندان روزانہ سات لیٹر دودھ خرید رہا ہے۔ پہلے اس خاندان کے ہاں صرف ایک بچہ تھا، اب اس بچے کے دو بھائی اور ایک بہن اور ہیں اور شاید چند دنوں میں ان کے ہاں ایک اوربچہ آنے والا ہے۔ بعض اوقات ہم اندھے ہو جاتے ہیں۔ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ حال کیسا ہے اوریہ نہیں دیکھتے کہ مستقبل کیا ہو گا؟ جیسا کہ سکول کا استا دایک لڑکے کے بارے میں کہتا ہے کہ جمی تو بدتمیز ہے، جنگلی ہے، کند ذہن ہے اور اس طرح جمی کی نشوونما نہیں ہونے پاتی لیکن وہ استاد جو کہتا ہے کہ جمی جیسا اب ہے بدل سکتا ہے اور بہتر ہو سکتا ہے اور اچھا طالب علم بن سکتا ہے تو جمی مستقبل میں اچھا بن جاتا ہے۔ -۲ کیا آپ نے کبھی اپنی اہمیت کا یقین کیا ہے؟ میں ایک تربیتی پروگرام کر رہا تھا۔ پروگرام کے بعد ایک نوجوان میرے پاس آیا، اس نے پوچھا کہ کیا وہ مجھ سے کچھ گفتگو کر سکتا ہے؟ میں نے اندازہ لگایا کہ اس نوجوان کی عمر 26 سال کے قریب ہے لیکن اس میں ابھی تک بچپنا بھی ہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ بلوغت کی ابتداء میں ہی اسے کسی بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے کوشس کر رہا ہے۔ کافی پینے کے دوران ہی میں اس کے تکنیکی مسئلے کے بارے میں معلوم کر چکا تھا۔پھر ہمارے گفتگو کا موضوع بدل گیا اورہم بات کرنے لگے کہ جو لوگ کسی جسمانی کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں کیا مستقبل میں بھی وہ کمزوری ان کے ساتھ دیتی ہے؟ نوجوان نے بہت ٹھوس جواب دیا تھا۔ اس نے کہا: بینک میں میرے پاس دو سو سے بھی کم ڈالر ہیں، میں کلرک ہوں اس لیے تنخواہ بھی زیادہ نہیں، او رذمے داریاں بھی زیادہ نہیں ہیں۔ میری کار 4 سال پرانی ہے۔ میں ایک بوسیدہ سے فلیٹ میں دوسری منزل پر رہتا ہوں۔پروفیسر صاحب! میں نہیں جانتا کہ مجھے کس چیز نے جامد کر رکھا ہے۔ یہ ان صاحب کا اپنے خلاف سازشی سا بیان تھا۔ میں نے اسے بات جاری رکھنے کا کہا۔ اس نے کہا، میں نے لوگوں کا تجزیہ کیا ہے بہت سے لوگوں کا وہ جیسے ہیں ایسے ہی کھٹن زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اپنے مستقبل کی طرف بھی نہیں دیکھتے۔ میرے پڑوسی ہی کی مثال لے لیجیے۔ اس کی نوکری بھی بہت ہی کم تنخواہ والی ہے۔ وہ بھی ایسے ہی زندگی کو گھسیٹ رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ غریب ہے اور غریب ہی رہے گا۔ وہ اپنے بوسیدہ سے فلیٹ میں بہت ہی سزاوار زندگی گزار رہا ہے بلکہ ایسے ہی گزارتا رہے گا۔ میں بھی اگر اپنی زندگی کی طرف دیکھوں تو مجھے بھی کم آمدنی، سستی خوراک، بوسیدہ فلیٹ اور پرانی کار کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا بلکہ مایوسی ہوتی ہے۔لیکن پھر میں نے سوچنا شروع کیا کہ مجھے ایک کلرک نہیں بلکہ افسر ہونا چاہیے بوسیدہ فلیٹ نہیں شاندار مکان ہونا چاہیے۔ میں نے جب اس طرح سوچنا شروع کیا تو میں محسوس کرنے لگا کہ میں بہت بڑا ہوں اور مجھے سوچنا بھی بڑا ہی چاہیے۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ میں اپنا بڑاپن ثابت کروں گا۔

ڈاکٹر ڈیوڈ جوزف شیوارڈز کی کتاب "بڑی سوچ،بڑی کامیابی" سے اقتباس

بشکریہ : دُنیا نیوز

دِلچسپ انگلش

1۔ انگلش زبان کے جس بھی لفظ کے شروع یا درمیان میں q ہوگا تو اسکے بعد ہمیشہ u آئے گا۔

2۔Dreamt انگلش میں وہ واحد ایسا لفظ ہے، جو mtپر ختم ہوتا ہے،اس کے علاوہ انگلش میں کوئی ایسا لفظ نہیں۔

3۔Underground انگلش زبان میں واحد لفظ ہے، جو Und سے شروع اورUnd پر ہی ختم ہوتا ہے۔

4۔ پوری انگلش زبان میں صرف چار الفاظ ایسے ہیں جوdous پر ختم ہوتے ہیں:
 Tremendous, Horrendous, Stupendous, & Hazardous

5۔ آکسفرڈ ڈکشنری کے مطابق انگلش زبان کا سب سے بڑا لفظ pneumonoultramicroscopicsilicovolcanoconiosis ہے، جو کہ پھیپھڑے کی ایک بیماری کا نام ہے۔

 6۔ Therein انگلش کا ایک ایسا لفظ ہے، جس سے دس الفاظ نکل سکتے ہیں:
 The, There, He, In, Rein, Her, Here, Ere, Therein, Herein

7-Key بورڈ پر صرف بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ٹائپ ہونے والا سب سے بڑا بامعنی لفظ Stewardessesہے۔

8۔ ہم اپنی روزمرہ گفتگو میں (ok) کا لفظ بہت استعمال کرتے ہیں اس کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ ایک امریکی صدر اینڈریو جیکسن نے all correct کے غلط ہجے یعنی oll kurrect استعمال کرتے ہوئے اس کے ابتدائی حروف o.k کو پاپولر بنا دیا۔

9۔ اگر آپ دنیا کے براعظموں کے نام انگریزی میں لکھیں ،تو آپ پر انکشاف ہوگا کہ ہر براعظم کا نام جس حرف سے شروع ہوتا ہے، اسی پر ختم ہوتا ہے۔ سوائے America کے North اور South کے:
 1-Asia 2- Africa 3-America 4-Antarctica 5-Europe 6-Australia

10-Typewriter کا لفظ ہی وہ واحد بامعنی لفظ ہے، جو آپ Key بورڈ کی صرف پہلی قطار کے حروف کے اندر اندر ٹائپ کر سکتے ہیں۔

11۔ خدا حافظ کہنے کے لیے انگریزی کا لفظgood bye استعمال ہوتا ہے، جس کی اصل God be with you ہے۔

12۔ انگریزی میںSilver اور Orange ہی دو ایسے الفاظ ہیں، جن کا کوئی ہم قافیہ لفظ انگریزی میں موجود نہیں۔

13۔ انگریزی زبان میں صرف تین الفاظ ایسے ہیں، جن میں دو u ایک ساتھ آتے ہیں:Vacuum, Residuum, Continuum

بشکریہ: دُنیا نیوز

ہاتھ میں گلاب ہو آنکھ میں ستارہ ہو

خوشبوؤں کا ہاتھ ہواؤں کے ہاتھ میں دینے والی اور رنگ برنگے پھولوں کی پنکھڑیاں چننے والی صبا رخ شاعرہ پروین شاکر کا
 ایک خوبصورت شعر ہے :
 گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو
 کوئی وجود محبت کا استعارہ ہو
ایک ایسا پھول جو صناع ازل کی رنگا رنگی سے مرصع ہونے کے ساتھ ساتھ ہمہ صفات بھی ہے اس کا نام گلاب ہے ایک ایسا پھول کہ جسے دیکھ کر رخِ محبوب کا مغالطہ و مبالغہ ہونے لگے اسے گلاب کہتے ہیں۔ گلاب قدیم زمانے سے شعراء اور ادیبوں کا من پسند پھول رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گل رخ محبوب کا ذکر گلاب کے بغیر ممکن ہی نہیں، کسی بھی زبان یا خطے کی شاعری گلاب کی تشبیہات اور استعارات سے بھری پڑی ہے شاعری میں جس قدر گلاب کا ذکر ہے اتنا کسی دوسرے پھول کا نہیں۔تہذیب و تمدن کے آغازسے لے کر آج دن تک گلاب محبت کے استعارے کے طور پر مستعمل چلا آرہا ہے۔ 600 سال قبل مسیح میں یونان کی معروف شاعرہ سیفو نے اپنی شاعری میں گلاب کو پھولوں کی ملکہ کا خطاب دیاتھا۔ 400سال قبل مسیح میں ایک یونانی فلاسفر نے’’ ہسٹری آف پلانٹس‘ ‘کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی، جس میں گلاب کی کاشت کا تفصیل سے ذکر ملتا ہے۔ اسی کتاب میں گلاب کو بیج کے بجائے قلم سے کاشت کرنے پر زور دیا گیاہے، آج پوری دنیا میں زیادہ تر گلاب اسی طریقہ سے کاشت کیا جا رہا ہے۔ علم نباتات کے مطابق گلاب کے پودے کا خاندان Roseceae کہلاتا ہے۔ سیب، ناشپاتی، آڑو، آلو بخارا، خوبانی، بادام، چیری اور رس بھری اس خاندان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ اٹلی کے ایک قدیم شہر سائی بیرس میں گلاب کی خشک پنکھڑیوں سے بستروں کے گدے اور تکیے بھرے جاتے ہیں جو سونے والے کو راحت خوشبو اور فرحت مہیا کرتے ہیں۔ ترک اور رومن اپنے اکثر کھانوں پر گلاب کی پتیاں اور عرق گلاب چھڑکتے ہیں۔ ترکی میں کسی خاص مہمان کا استقبال بیرونی دروازے پر عرق گلاب چھڑک کر کیا جاتا ہے ہندوستان میں اس رسم کو تیل ڈھالنا کہتے ہیں۔گلاب کینیڈا کی کچھ ریاستوں اورامریکہ کے علاوہ برطانیہ کا بھی قومی پھول ہے۔ انگریزوں کی روایات اور تاریخ سے گلاب کا بہت گہرا تعلق ہے۔ ماضی میں اکثر برطانوی بادشاہوں کے تمغوں پر نقش کیا جاتا رہا ہے۔ دنیا میں گلاب کی تقریباً دس ہزار اقسام پائی جاتی ہیںگلاب کی وہ بنیادی اقسام جنہیں گلاب کے آباؤاجداد میں شمار کیا جاتا ہے ان کی تعداد160 ہے۔ اس تعداد میں سے12 اقسام قدرتی طور پر پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ جنگلی گلاب کا پھول عام طور پر پانچ پنکھڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ایک ٹہنی پر پتوں کی تعداد پانچ یا سات ہوتی ہے۔ چین میں پائی جانے والی ایک جنگلی قسم کی پنکھڑیوں کی تعداد چار ہوتی ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میکسیکو میں پائے جانے والے ایک جنگلی گلاب کے پھول کی صرف تین پنکھڑیاں ہوتی ہیں۔ آسٹریا میں پایا جانے والا جنگلی گلاب جس کا نام کاپرروز ہے، اس کی پنکھڑیوں کاسیدھے رخ سے رنگ نارنجی سرخ اور پشت کی طرف سے پیلا ہوتا ہے۔ گلاب کے جنگلی پودے کا قد 1ٹ سے لے کر 40فٹ تک ہوتا ہے۔ گلاب کی چند اقسام بغیر کانٹوں کے بھی ہوتی ہیں۔ ماہرین نباتات کے مطابق گلاب کی ٹہنی پر نکلنے والے کانٹے دراصل کانٹے نہیں بلکہ گلاب کی ٹہنی کی اندرونی سخت لکڑی ہی کا ایک حصہ ہوتے ہیں گلاب کی ایک قسم روزا گالیکا کی پنکھڑیوں کو اگر خشک کر لیا جائے تو پھر بھی وہ تازہ پھولوں ہی کی طرح خوشبو دیتی ہیں۔گلاب میں خوشبو اس کی معراج تصور کی جاتی ہے۔ مشرقی ذوق اور طبع کے مطابق یہ صرف گلاب کے پھولوں پر ہی موقوف نہیں بلکہ یہاں ہر پھول میں مہک کا ہونا لازمی امر خیال کیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ خوشبو دینے والا گلاب ملک شام کے علاقہ دمشق میں پایا جاتا ہے۔ جسے گلاب دمشق کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ گلاب دمشق کو یورپ میں پائی جانے والی بہت سی جدید اقسام کے وجد میںشمار کیا جاتاہے۔ صلیبی جنگوں کے دوران یورپی جنگجو وسط ایشیاء سے جو علم ،ہنر اوردیگر اشیاء یورپ لے کر گئے ان میں سے ایک گلاب دمشق بھی ہے۔ تاہم گلاب کا حقیقی اور آبائی وطن ایران اور چین ہیں۔ انہی دو ممالک سے چل کر گلاب پوری دنیا میں پھیلا ہے۔ گلاب کو حسن و لطافت ، محبت و الفت، بہادری ، شجاعت، رازو نیاز، سادگی و معصومیت اور اتحاد و یگانگت جیسی خوبیوں کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ معانی کے اعتبار سے مصری اسے خاموشی کا مظہر خیال کرتے ہیں ایرانیوں کے نزدیک یہ حسن کی علامت ہے۔ گلاب کا پودا ہمہ صفت موصوف ہونے کے باعث طبی خواص کا بھی حامل ہے۔ کتاب المفردات کے مطابق گلاب مفرح قلب، مقوی اعضائے رئیسہ، اور قابض ہے جبکہ زیادہ مقدار میں دست آورہے۔ اس کے تازہ پھولوں سے گل قند تیار کیا جاتاہے جو قبض رفع کرتا ہے۔ عرق گلاب آنکھوں میں ڈالی جانے والی دواؤں میں استعمال ہوتا ہے۔ایرانیوں نے عرق گلاب کی کشید کے فن کو درجہ کمال پر پہنچایا۔ پھولوں کا ضماد ورم جگر کو تحلیل کرتا ہے۔ گلے کے امراض میں اس کے جوشاندہ سے غرغرے کرواتے ہیں عرق گلاب میں کھرل کیا ہوا سرمہ سوزش چشم کو مفید ہے۔ گلاب کے پھولوں کا زیرہ منہ اور مسوڑھوں سے آنے والے خون کو روکتا ہے۔ پیوندی گلاب کی بعض اقسام کے پھول کی پنکھڑیاں جھڑ جانے کے بعد پیدا ہونے والے ڈوڈے وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیںیورپ میں انہیں جام جیلی اور مارملیڈ بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان ڈوڈوں سے کشید کیے گئے ست سے چائے بنائی جاتی ہے جو صحت بخش اور فرحت و تازگی کا باعث ہے۔بعض اقسام کے ڈوڈے انتہائی چمک دار تیز سرخ یا سبز رنگ کے ہوتے ہیں جنہیں پھولوں کی جگہ گلدانوں میں سجایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر گلاب کی افزائش اور قدردانی کے سلسلہ میں دو مشہور ادارے ہیں پہلا رائل نیشنل روز سوسائٹی لندن اور دوسرا امریکن روز وسائٹی ہے۔یہ دونوں ادارے ہر سال گلاب کی نمائشیں منعقد کرواتے ہیں اور اول آنے والوں کو انعامات سے نوازتے ہیں۔یہ سلسلہ1928ء سے جاری ہے۔ ماڈرن روز نامی ایک کتاب ہر پانچ سال بعد امریکا میں چھپتی ہے ،جس میں گذشتہ پانچ سال میں پیدا ہونے والے گلاب کی تمام اقسام کا ذکر بالتفصیل درج ہوتا ہے۔ رائل نیشنل سوسائٹی لندن ’’دی روز‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی جریدہ بھی جاری کرتی ہے۔ وطن ِعزیز میں جو ادارے گلاب کی ترویج و ترقی میں مصروفِ کار اور کوشاں ہیں ان میں پیکجز لمیٹڈ ،پی آئی آے اور سی ڈی اے اسلام آباد قابلِ ذکر ہیں۔ ہماری زندگی کا کوئی لمحہ خوشی، مسرت اور شادمانی سے آراستہ ہو یا غم و اندوہ سے وابستہ، گلاب ہمارے احساسات و جذبات کے اظہار کے لیے زمانۂ قدیم سے ہمارے ساتھ ساتھ چلا آرہا ہے اور شائد تا ابد موجود رہے گا۔

تحریر:سخی رشید اعوان

Monday, 26 May 2014

تلاشِ رشتہ

گاڑی دروازے پر آکر رکی اور اس سے مہمان بر آمد ہوئے۔یہ مہمان لاہور سے راولپنڈی صرف گڈو میاں کو دیکھنے آئے تھے ۔مہمانوں کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا اور اس کے بعد کھانا لگایا ۔ کھانا کھا نے کے بعد مہمان خالہ جان چائے کی چسکی لیتے ہوئے بولیں’’ جی ذرا آپ اپنے صاحبزادے کو بلالیں‘‘۔ یہ سننا تھا کہ گڈو میاں مارے شرمندگی کے پانی پانی ہوگئے۔تب مہمانوں پر یہ راز فاش ہوا کہ اتنی دیر سے جو ’’انکل ‘‘اتنی آؤ بھگت کر رہے ہیں یہ کوئی اور نہیں بلکہ خود گڈو میاں ہیں۔ گڈو میاں کا اتنی بڑی عمر میں بھی کنوارا ہونا کسی اور نہیں بلکہ اپنے ہی گھر والوں کی وجہ سے تھا۔ گڈو میاں کی والدہ اور بہنیں آئے روز کہیں نہ کہیں ’’لڑکی دیکھنے‘‘ گھر سے نکلتیں اور شام کو لڑکی اور اس کے گھر والوں کی برائیاں کرتے واپس لوٹتیں۔ کسی لڑکی کی آنکھیں پسند نہ آتیں اور کسی کے کان۔کوئی انہیں زیادہ موٹی لگتی اور کوئی ضرورت سے زیادہ نازک۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گڈو میاں کے کلاس فیلوز کے بچے میٹرک کر رہے تھے اور گڈو میاں آج بھی مہمانوں کے سامنے سر جھکائے زمین کو گھورے جارہے تھے۔
یہ تو تھی گڈو میاں کی کہانی لیکن در حقیقت تلاشِ رشتہ پاکستان اور اسکے ساتھ کے ایشیائی ملکوں کاایسا مسئلہ ہے جو بیٹی کے پیدا ہوتے ہی والدین کو غمگین کر دیتا ہے۔ ہم عربوں کی جہالت کی مثالیں دیتے لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے کہ وہ لوگ معصوم بچیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ مانا کہ اب دور نہیں رہا اب لڑکیوں کو زندہ دفن نہیں کیا جاتا لیکن جوان بیٹیوںکے والدین اور سرپرست آئے روز کسی نہ کسی مسئلے کی وجہ سے زمین میں گڑھ جاتے ہیں۔
آج اگر کوئی لڑکا کسی پنساری کی دُکان پر فقط چھ ہزار پر ملازم بھی ہو اور اگر آپ اُس کی والدہ سے صرف یہ پوچھ لیں کہ اُنہیں اپنے بیٹے کے لئے کیسی لڑکی کی تلاش ہے؟تو بی بی جی آپ کو جب اپنی مختصر سی ڈیمانڈز بتائیں گی کہ انہیں ایسی لڑکی جائیں جس کا قدلمبا ہو،رنگ گورا ہو،تعلیم اچھی ہو،فیشن نہ کرتی ہو، خدمت گزار ہو،والد ذرا صاحبِ حیثیت ہو، ہمیں خوش رکھے وغیرہ وغیر ہ ۔ بظاہر یہ سب باتیں ٹھیک ہی ہیں۔مگر پہلی بات تو یہ کہ تمام صفات کا ایک جگہ پایا جانا ممکن ہی نہیں ۔ کیونکہ لڑکیوں کا قد عام طور پر ہوتا ہی چھوٹاہے۔ اوررنگ کی بات کی جائے تو آج کل گورا ہونا ہمارے نزدیک اصل خوبصورتی ہے مگرافسوس اس سر زمین پر بسنے والے عام طور پر گورے نہیں ہوتے۔اچھی تعلیم کا حصول اب ہر کسی کے لئے ممکن نہیںمگراسکے باوجود تمام والدین اپنی اولاد کو اچھی سے اچھی تعلیم دلوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
جہاں تک بات فیشن کی ہے تو اب ایسا ہے کہ فیشن اگر کسی اور کی بچی کرتی ہو تو وہ بے غیرتی ہے اور اگر اپنی بچی کرے تو خوبصورتی۔اپنا بیٹا جیسا بھی ہو بہو فرشتہ چاہئے ہوتی ہے۔میرا کہنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ پوری زندگی جس کیساتھ گزارنی ہو اسکا انتخاب آنکھیں بند کر کے کرلیا جائے۔مگر بلا وجہ کی شرائط رکھنے سے پہلے اتنا ضرور سوچا جائے کہ جن بچیوں کا قد لمبا نہیں ،یا رنگ گورا نہیں ،تعلیم تھوڑی کم ہو ،مالی حالت زیادہ اچھی نہ ہو توکیا وہ پوری زندگی جلتے کڑھتے تنہا گزاریں گی؟ہمارے یہ خود مقرر کردہ معیار ہر ہر گز ہر گز کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔
نپولین بونا پارٹ جیسا آدمی چھوٹے قد کیساتھ پورا مُلک کو چلا سکتا ہے تو ایک گھر چلانے کے لئے لمبا قدکیا بہت ضروری ہے؟دنیا میں سب سے زیادہ کالے رنگ سے نفرت امریکی گوروں کو تھی اب وہ بھی اس نفرت کو آہستہ آہستہ اپنے اندر سے بھلاتے جارہے ہیں۔مگر پاکستانی اور ہندوستانی ساسیں ابھی تک اپنی ضد پر قائم ہیں۔ان بلاوجہ کے نزاکتوں کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ والدین پر دبائو بڑھتا چلا جاتا ہے اور پھر جلد بازی میں ایسا فیصلہ بھی کرنا پڑتا ہے جوبالکل بھی مناسب نہیں ہوتے۔
رشتوں کی تلاش کے یہی چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں جن کی وجہ سے آج ہر جوان لڑکی کے ماں باپ کی نیندیں اڑی ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ جس کام کو جتنا مشکل بنا دیا جائے اس میں فراڈ اور بے ایمانی بھی اتنی ہی بڑھتی چلی جاتی ہے۔معاشرے میں رشتوں کا خلا آیا تو اسے پر کرنے کے لیے کاروباری ذہن کے لوگ ’’میرج بیورو‘‘ کے تصور کے ساتھ سامنے آگئے۔آئے روز ان لوگوں کی طرف سے اخباروں اور مختلف ویب سائیٹس پر مختلف رشتوں کے اشتہارات آتے رہتے ہیں۔ان میرج بیوروز کی آڑ میں بھی اب ایسا دھوکہ دہی کا بازارگرم ہے کہ خدا کی پناہ۔ ہر میرج بیورو نے اپنی حثیت کے مطابق رجسٹریشن فیس رکھی ہوئی ہوتی ہے۔جھوٹے رشتے کا اخبار میں اشتہار دیا جاتا ہے،رشتے کے امیدواروں سے رجسٹریش فیس وصول کی جاتی ہے،اس کے بعد بعض اوقات خود ساختہ ’’والدین‘‘ سے بھی ملوایا جاتا ہے اور پھر ٹکا سا’’ سوری‘‘کہہ کر شکار کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔
یہ میرج بیوروز اپنے اشتہارات ایسے ہی شائع کراتے ہیں جیسے مچھلی پکڑنے کے کانٹے کے ساتھ خوراک لگائی جاتی ہے،مثلاََ ’’لڑکی عمر بتیس سال،رنگ گورا،قد چھے فٹ،فیملی بیرونِ ملک سیٹل،اپنا بزنس وغیرہ وغیرہ‘‘۔ساتھ یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ’’ ایسے لڑکے کو ترجیح دی جائے گی جوبیرونِ ملک شفٹ ہوسکے‘‘۔یہ لوگ اتنے شاطر ہوتے ہیں کہ رفعِ شک کی خاطرکوئی معمولی سا عیب اشتہار میں لکھنا نہیں بھولتے تاکہ حقیقت کا تڑکا لگایا جاسکے۔ایسے اشتہارات کو دیکھ کرسینکڑوں لوگ میرج بیورو کی فیس اداکرتے ہیںاور سہانے سپنے آنکھوں میں بسائے جواب کا انتظار کرنے لگتے ہیں ۔انہیں کچھ دن بعد ’’جواب‘‘ موصول ہوتا ہے کہ ’’آپ کی تصویر دکھائی تھی لیکن آپ ان لوگوں کو پسند نہیں آئے‘‘۔
دوسروں طرف رشتے کے متلاشی ا فراد بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ باقاعدہ دعوتیں اڑائی جاتی ہیں اور پھر اس بات پر ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے کہ اسکی آنکھ ٹیڑھی ہے،اسکی ناک لمبی ہے،اسکا ہنسنا عجیب ہے،اس کی چال ٹھیک نہیں لگ رہی اور اس کے چلن۔ سوچئے جب محلے کی’’ رشتے کرانے والی مائی‘‘ آکر ایسی وجوہات سناتی ہوگئیں تو ماں باپ اور لڑکی کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ ظاہر ی طور پر ان مسائل کا کوئی حل دیکھائی نہیں دیتا کیونکہ جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلیں گے کچھ بدل نہیں سکتا۔میری صرف یہی گزارش ہے کہ دنیا میں ا نسان کے لیے انسان کا ہی رشتہ تلاش کیا جائے نہ کہ کسی حور ، پر ی یا فرشتے کا جس کا وجود ہی ممکن نہیں۔

تحریر:مبشر اکرم

قصور کسی کا مگر کوسیں بجلی کو

سائنسی ایجادات کی ابتداء  کے بعد انسانی سہو لیات میں بتدریج اضافہ ہو نا شروع ہوگیا۔ پہیہ کی ایجاد نے ذرائع آمد و ر فت میں آسا نی پیدا کی،بلب کی ایجاد سے رات میں دن کا سماں ہونے لگا،ٹی وی ایجادہوا تو تفریح اور وقت گزاری کا ایک اچھا موقع ہاتھ لگا،ٹیلی فون اور موبائل رابطے کاچلتے پھرتے مؤثر ذریعہ ثابت ہوئے، کمپیو ٹر اور انٹر نیٹ نے ذخیر ۂ معلوما ت میں بے پناہ ا ضافہ کیا۔
مگروائے افسو س! ان سب کو چلانے کے لئے بجلی کی اشد ضرورت ہوتی ہے، لیکن پاکستا ن میں غیر اعلا نیہ لوڈ شیڈ نگ جس تیزی سے جاری ہے اس کی وجہ سے  یہ مشینیں استعما ل میں تو کم ہوتی ہیں  البتہ بجلی کی آنکھ مچو لی کے آگے جلد ہمت ہار کر ناکارہ ہوجاتی ہیں۔
بے شک واشنگ مشین نے خاتونِ خانہ کا صد یو ں پرا نا مسئلہ حل کر دیاہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب خاتون خانہ  کے ایک ہاتھ میں دیسی صابن اور دوسر ے ہا تھ میں بیس بال کی طرز کا ایک عدد ڈنڈا ہوا کرتا تھا،یہ ڈنڈا ایک وقت میں تین تین کام سرانجا م دیتا تھا،اس سے کرکٹ کھیلی جا تی،شرارتی اور کہنا  نہ ماننے والے بچوں کی ٹھکا ئی کی جاتی اور پھر آخر  میں یہ کپڑوں کیُ دھلائی کے کا م آتا،اس طر ح بیک وقت بچوں کے رونے کےُ سروں اور کپٹرے دھوتے وقت ڈنڈے سے نکلنے والے سا ز سے ایک عجیب سا سماع بندھ جاتاتھا ۔ بھلا ہو اس واشنگ مشین کا کہ اگر لائٹ ہو تو پتا ہی نہی چلتا کہ کب کپڑے دھوئے ، نکالے اور سوکھ بھی گئے،کیونکہ الٹرا ماڈرن قسم کی مشینوں میں یہ سب سہولتیں بدرجہ موجود ہیں۔ لیکن واشنگ مشین کے یہ کمالات تب ہی ممکن  ہیں جب بجلی موجود ہو۔
ویسے جناب اس لوڈ شیڈنگ کا میرے نزدیک ایک بہت اہم فائدہ ہے ، جس سے  ہمارے عوام ناواقف ہیں۔  ایک تو یہ کے جب صبح ۹ بجے سے لے کر رات 9 بجے تک بجلی نہیں ہو گی تو خواتین میں لگائی بجھائی کا تناسب کم ہو گا۔ لڑائی جھگڑے کی شرح میں بھی کمی واقعہ ہو گی ۔تمام اخلاقی برائیاں اچھے اخلاق میں تبدیل ہونا شروع ہوجائیں گی، اب آپ پوچھیں گے کیسے؟ وہ ایسے کہ سارا وقت  بجلی آنے کے انتظار میں دعا مانگتے ہوئے گزر جائے گا۔ یا اللہ لائٹ آجائے۔اللہ میاں جی یہ لا ئٹ کب آئے گی۔  یوں   خاتون خانہ کو ذکر الہی کی سعادت بھی نصیب ہوتی رہے گی ۔ اور ان کی سارای توجہ گھر میں بکھرے کاموں کی جانب ہی رہے گی۔ کیوں صحیح کہا نہ میں  نے۔
ویسے مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں قومی یکجہتی کا فقدان ہے۔ جب بھی تین یا چا ر گھنٹے کے بعدلائٹ آ تی ہے تو سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا ہے آہا !لائٹ آگئی، اورپھر جب دوبارہ کئی گھنٹے کے لیئے چلی جاتی ہے تو ایک دفعہ پھر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کی ایک ہی صدا سنائی دیتی ہے اوہو!لائٹ چلی گئی۔
لیکن ایک بات جان کر مجھے بے حد دُکھ ہوا  کہ ہمارے حکمران کس قدر غریب ہیں کہ وہ اپنا یوٹلیٹی بل تک نہیں ادا کر سکتے۔ شکر اللہ کا کہ اُس نے ہمیں صاحب استطاعت بنایا ہے اور ہم اپنا بل پر ادا کرتے ہیں ۔
ویسے ایک بات ہے کہ اگرحکمرانوں کے محلات میں بھی طویل غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہوتی تو ان کو بھی کلمہ طیبہ اور بہت سی دعائیں یاد ہوتیں ۔ بڑے بڑے ڈیم اور منصوبے بنانے سے تو یہ کہیں زیادہ آسان کام ہے کہ آپ دعائین ہی یاد کرلیں۔ یوں لوڈشیڈنگ کے مارے  نامزد امیدوار سیاست کے سالانہ امتحان میں فیل ہو کر نا اہل بھی نہ ہوتے اور بدنامی سے بھی بچ جاتے۔
یہاں میرا سیاست دانوں کو کسی بھی قسم کے القابات سے نوازنے کا با لکل  ارادہ نہیں ہے بلکہ میرے خیال میں تو لوڈ شیڈنگ نے بہت سی گھریلو سہولیات میں اضافہ کر دیا ہے ۔ اب دیکھئے  نا  پہلے کتنا ہنگامہ ہوا کرتا تھا ، جب پوری بجلی آیا کرتی تھی ،ہرروز نہیں تو ہفتے میں ایک دفعہ ضرور گھروالوں کے کپڑے استری سے جل جایا کرتے تھے یا پھر استری اپنا نشان چھوڑ جایا کرتی تھی ،لیکن اب تو جناب مسئلہ ہی حل ہوگیا ہے۔ ۔۔ اب  آپ بیشک استری کپڑے کے اوپر رکھ کے بھول جائیں ،مجال ہے کہ ذرا سی بھی کہیں سے کپڑا جلنے کی اطلاع ملے ۔
ایسا لگتا ہے کہ بجلی کا یہ بحران ہماری زندگی کا لازمی جزو بنتا جا رہا ہے ۔اگر بجلی گھر آئے مہمان کی طرح زیادہ دیر کے لئے رکی رہے تو ہم حیران ہو کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ محترمہ آخر کب جائیں گی،؟؟ابھی تک گئی کیو ں نہیں ،؟؟۔خدا خیر کرے
صاحب! بجلی پر تو اس قدر لکھا جا سکتا ہے کہ لکھتے لکھتے ہاتھوں کی انگلیوں میں کر نٹ دوڑنے لگے،دل و دماغ کا میٹر شارٹ ہو جائے،غصہ اس قدر آئے کہ440وولٹ کی اس کے آگے کیا حیثیت،جسم میں خون کسی برقی رَوکی طر ح گردش کرنے لگے،سانس لینے کی رفتار اس قدر تیز ہو کہ اس کے فیوز ہی اُڑ جانے کا اندیشہ ہو،مُنہ سے ایسے ایسے کلمات ادا ہو ں کہ مثبت اور منفی چارج کا فرق ختم ہوجائے ۔۔ اس سے پہلے کہ ہم بجلی کی رَو میں مزید بہہ کر کہیں سے کہیں نکل جائیں۔  اور اپنے غصے کی گرمی نکالنے لگیں واپس آجائیں۔ اور  گرمی سے یاد آیا  ایک تو بجلی نہیں اوپر سے گرمی بڑی۔ اے سی کے بغیر گزارا نہیں  ہوتا یہ نہیں تو روم کولر تو  ضرور ہونا چاہئے ۔ ۔اب کون سرے شام صحن میں چارپائی بچھائے  اور پانی  کا چھڑکاؤ کرے۔ اور پھر رمضان المبارک کی بھی آمد آمد ہے پتا نہیں بجلی صاحبہ اس مقدس ماہ میں اپنی روش بدلتی ہیں یا  پھر وہی عوام کے ساتھ آنکھ مچولی جاری رکھیں گے ۔ ویسے اس کیفیت کو ایک شاعر نے بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
        نمازی مسجدوں میں کس قد ر حیران بیٹھے ہیں
        یہ روزہ دا ر بیچارے بہت ہلکان بیٹھے ہیں
       بہت بے ہوش لیٹے ہیں بہت بے جان بیٹھے ہیں
           لیے ہاتھوں میں بس اک دولتِ ایمان بیٹھے ہیں
کچھ عرصہ قبل ٹیلی وژن پر ایک اشتہار چلا کرتا تھا۔ میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے اک خوشحالی  سی لہرائی ہے۔نہ بجلی آئی نہ ہی خوشحالی ، بس عوام سی سی ہی کرتی رہ گئی۔آپ کو شاید یاد ہوگا کہ پُرانے وقتوں  میں جب بیل کی مدد سے کنو یں سے پانی نکا لا جاتا تھا۔ گدھا پنکھے کا بہتر ین نعیم البدل  ہوتا تھا یعنی گدھا جب بیل کی طرح گول گول گھومتا ہے،تو دوسری طرف پڑے ہوئے کپڑے سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے  تھے۔ کیوں نہ اس طریقہ کار، کو گاؤں گاؤں،قریہ قریہ ،شہرشہررواج  بنا دیا جائے۔ ہمارے ملک میں کونسا بیل کی طرح کام کرنے والوں اور گدھوں کی کمی ہے۔ بس آزمائش شرط ہے۔  اس سے کم از کم عوام کا روز روز کا لوڈشیڈنگ کا رونا بند ہوجائے گا اور حکمران  بھی لوڈشیڈنگ کے آئے روز کے احتجاجوں اور ریلیوں سے نجات پا کر  سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ لوڈشیڈنگ سے نجات کے میرے اس قیمتی مشورے پر کبھی عمل نہ ہوگا کیونکہ
           یہاں چھوٹی ،بڑی جتنی بھی ہے سرکار ناقص ہے      کریں کیا ہم ہمارا سارا   کاروبار ناقص ہے

تحریر:رانا محمد اصغر

Saturday, 24 May 2014

چائے

چائے بھلا کہاں کہاں نہیں پی جاتی۔ جھونپڑیوں سے لے کر وی آئی پی دفتروں تک، گلی کوچوں سے فیکٹریوں تک، مساجد کے حجروں سے محلات کے بالا خانوں تک، چمن سے چکیاں تک اور چکوال سے چیچہ وطنی تک ہر جگہ اسکا راج ہے اور چوہدری سے چرواہے تک ہر کوئی اسکا شوقین ہے۔ پانی،دودھ ،چینی اور پتی وہ چار عناصر ہیں جن سے چائے بنتی ہے۔ اس میں سے اگر پانی کو نکال دیا جائے تو یہ چائے کی بجائے دودھ پتی بن جاتی ہے، دودھ نکال دیا جائے تویہ قہوہ رہ جاتی ہے۔ چینی نکال دی جائے تو یہ شکر سے پاک ( شوگر فری) یا ڈائٹ چائے بن جاتی ہے جو ذیابیطس ( شوگر) والوں کیلئے بنائی جاتی ہے اور اگر اس میں سے پتی نکال دی جائے تو کوئی چائے نہیں بن سکتی۔ البتہ پانی،دودھ، اور چینی مل کر کچی لسی بناتے ہیں اور ہم کچی لسی کو کبھی بھی چائے کا نام نہیں دے سکتے اور نہ ہم اس لسی کو چائے کا نام دے کر چائے کو بدنام کر سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ خوشبو کیلئے چائے میں الائچی ڈالنا پسند کرتے ہیں جبکہ گرمیوں میں اور خاص کر بارش کے موسم میں کوئی ایک آدھ مکھی آکر یہ کمی پوری کر دیتی ہے۔ جس کیلئے ہمیں یقیناً اس مکھی کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اپنی جان پر کھیل کر اس نے ہماری چائے کو رونق بخشی۔ اکثر آپ ایک چسکی لگانے کے بعد جب دوسری چسکی لینے کیلئے کپ اٹھاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ایک مکھی صاحبہ تیراکی سیکھ رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں چنگیزی صاحب کی کتاب ‘‘چائے اور چکر’’ چھپ کر مارکیٹ میں آئی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں‘‘ اگر آپ کسی کو چکر دینے کیلئے انتظار میں بیٹھے ہیں مگر نیند کی وجہ سے آپکو چکر آرہے ہیں تو چکرانے کی کوئی بات نہیں چائے پی لیجئے۔ چائے آپ کے (تھوڑے بہت) دماغ کو اچھی طرح خشکی پہنچا کرسکون کو تباہ کرکے نیند کا بیڑہ غرق کردے گی اور چکر آنا بند ہو جائیں گے۔ اگر تھوڑی دیر بعد آپ کو پھر چکر آنے لگیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ نے جو دوسروں کو چکر دئیے، وہ واپس آرہے ہیں۔ انسان تو انسان ان کے گھر کے تو جانوروں کو بھی چائے کے چسکے پڑے ہو ئے ہیں۔ اخباری اطلاع کے مطابق ایک گائے ‘‘چکوری’’ کو تو چائے کا اتنا چسکا ہے کہ چائے کا برتن سامنے رکھ دو تو چارا کھانا بھی چھوڑ دیتی ہے۔ خیر اس میں بھی کو ئی تعجب والی بات نہیں ہے۔ آج کل ٹی بیگ والی چائے کا فیشن عام ہوتا جا رہا ہے خاص کر دفتروں میں گرم پانی پیالیوں میں ڈال کراس میں ٹی بیگ کو دو تین مرتبہ غرق کرکے نکال لیا جاتا ہے۔ یہ بھی چائے ہی ہوتی ہے چاہے اس میں ذائقہ نام کی کوئی چیز بھی نہ ہو۔ایک اور پہلو دیکھیںچائے کا ، کچھ لوگ دوسروں کے گھر صرف اس لیے ملاقات کیلئے آتے ہیں کہ ان کے گھر کی چائے اچھی ہوتی ہے۔ اور میزبان سے بڑے خلوص کے ساتھ ملتے ہیں اور حال احوال پوچھتے ہیں جیسے صرف انکی خیریت معلوم کرنے کیلئے آئے ہیں۔ 

تحریر: فائزہ نذیر احمد

بشکریہ: دُنیا نیوز

کب دَرد کے ماروں کو سکوں ہوتا ہے محسنؔ


جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارہ ہوا


میں اس طریقہ علاج کے خلاف ہوں

بچے سُنتے کیوں نہیں آخر؟؟؟

بالغوں کے مقابلے میں بچوں کو اردگرد کا ماحول اس وقت بالکل نظر نہیں آتا، جب ان کی توجہ کسی ایک جگہ پر مرکوز ہوتی ہے۔ماہر نفسیات  ایک نئی سائنسی تحقیق کا نتیجہ ایسے بہت سے والدین کی غلط فہمی دور کر سکے گا جنھیں اپنی چہیتے بچوں سے شکایت رہتی ہے کہ وہ اپنے کسی مشغلے کے دوران جان بوجھ کر ان کی آواز کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ لیکن، بچوں کے اس رویہ کے پیچھے چھپی سچائی کی سائنسی توجیہہ کا ماہر نفسیات نے پتا لگا لیا ہے۔ اْن کا کہنا ہے کہ بچوں کو بالغوں کے مقابلے میں اردگرد کے ماحول اس وقت بالکل نظرنہیں آتا ہے جب ان کی توجہ کسی ایک جگہ پر مرکوز ہوتی ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن کے تحقیق کاروں نے پتا لگایا ہے کہ 14 برس سے کم عمر بچوں میں بالغان کی نسبت اس بات کا امکان زیادہ ہوتا ہے کہ کسی کام میں منہمک ہوکر وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھنے کے قابل نہیں رہتے یا ان کی نظریں نقطۂنظر سے ہٹ کر کچھ دیکھ نہیں سکتی ہیں۔ تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ بچوں میں توجہ کے مرکز سے باہر بیداری کی صلاحیت عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے۔لہذا، کم عمربچے دوسری طرف توجہ نہ دینے کا شکار رہتے ہیں۔'فرنٹیئر آف ہیومن نیوروسائنس' میں شائع ہونے والی یہ تحقیق اس بات کی بھی وضاحت کرسکے گی کہ کیوں بچے کتاب پڑھتے ہوئے یا گیم اور کارٹون دیکھتے ہوئے والدین کی بات کو سنی ان سنی کردیتے ہیں۔ جبکہ، حقیقت یہ ہے کہ ایک سادہ سی دلچسپی بچوں کو ارد گرد کے ماحول سے بے گانہ بنا دیتی ہے۔ ماہر نفسیات پروفیسر نیلی لاوی جو اس تحقیق کی سربراہی کررہی تھیں، کہتی ہیں کہ بچوں میں بصارت Peripheral vision یا سائیڈ وژن (نقطۂ نظر یا مرکز سے باہر اشیاء یا تحریک دیکھنے کی بصری صلاحیت) بالغوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔انھوں نے کہا کہ مثال کے طور پر سڑک کراس کرتے ہوئے اگر بچہ اپنی جیکٹ کی زپ بند کر رہا ہے تو وہ آنے والے ٹریفک کو محسوس کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اسی لیے، والدین کا یہ فرض کر لینا کہ بچے انھیں دانستہ طور پرنظر انداز کرتے ہیں غلط ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ ان کے دماغ تک اس بات کی کبھی رسائی ہی نہیں ہوسکی ہے۔

بشکریہ: دُنیا نیوز

سماجی تبدیلی

یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں بس کچھ ہی سالوں پہلے کی بات ہے جب عوام نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار سے لاتعلق اور  بے گانہ ہوا کرتے تھے ۔  ایک پی ٹی وی ہی تھا جس پر تنقید تو تھی مگر شہد سے زیادہ میٹھی، اور شاید وجہ تھی کہ اصل سیاست تو گلی کوچوں میں ہوا کرتی تھی۔ محلوں میں بزرگ و جوان رات دیر تک نجی محفلیں سجا کر ملکی سیاست سمیت مختلف موضوعات پر طویل بحث و مباحثہ  اور دل کھول کر ملکی سیاست پر تنقید کیا کرتے تھے ایسا لگتا تھا  اگرہمارےماموں ملک کا صدر بن جاتے تو سب کی خیر ہوجاتی۔ہم بچے اس زمانے میں  پی ٹی وی پر چلنے والی پاک فوج کے نوجوانوں کے  پروگرام روزانہ دیکھ کر فوجی افسر بننے کے خواب دیکھتے تھے۔
بات محض خوابوں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ہم باقاعدہ مشقیں بھی کرتے تھےکبھی  کھڑے ہوکر گھر کی دیوار پر چڑھنا، کبھی چھت سے چھلانگ لگانا   کبھی  کسی درخت سے لٹکنا  غرض یہ کہ فوجی افسر بننے کی تگ و دو میں مسلسل جدوجہد کرنا ہمارا نصب العین بن گیا تھا۔اور ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ لیا تھا کہ  اگر فوجی نہ بھی بنے تو کشمیر کو تو ضرور کافروں سے آزاد کریں گے کیوں کہ اس وقت جب پاکستان کے اندرونی حالات بہتر تھے تو مساجد سے لیکر اخبارات تک سب میں جہادِ کشمیر کامواد دل کھول کر موجود ہوتا تھا اس کے علاوہ افغان مجائدین کے کارناموں کی کمی بھی نہیں تھی الغرض ہم وہی سوچتے تھے جو دیکھتے تھے یا یوں کہیں وہی سوچتے تھے جو ہمیں دکھایا  اور پڑھایا جاتا تھا۔
وقت پلک جھپکتے ہی بدل گیا۔  امن کی فاختہ شہر سے پرواز کر گئی اب نہ وہ  راتوں کی محفلیں رہیں نہ سیاست نہ پوری رات فٹبال ورلڈ کپ پر کالونی میں شور و غل ۔ اب اگر رات گئے کچھ سنائی دیتا ہے تو وہ فورسز کا گشت اور سائرن کی آوازیں۔
مختلف قسم کی تحریکوں اور مذہبی خون خرابے  نے عوام اور نوجوانوں کو خوف اور سنجیدگی کے دلدل میں دھکیل دیا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بجی ٹی وی چینلز نے سماج کو یکسر بدل کے رکھ دیا ۔ ٹاک شوز اور دیگر پروگرامات  نے  ایک دوسرے سے سبقت لے جانے  کی دوڑ میں سچ اور انکشافات کرنے  کا رجحان بڑھایا اور اس رجحان کا نتیجہ صحافیوں کی جان  کو خطرے کی صورت میں نکلا ساتھ ساتھ موجودہ نسل  کے بچوں کی معصومیت چین لی گئی اور  سب ہی آج کل سیاست داں بن گئے ہیں ۔
اگرسوشل میڈیا  کی بات کی جائے تو اُس نے تو سونے پر سہاگہ والا کام کیا۔ سماج کے بدلنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو معاشرےکے قدامت پسندانہ روایات کا باغی بنا کر انکار کرنا سکھا دیا، سوال پوچھنا سکھا دیا۔ آسان لفظوں میں یوں کہیں کہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا نے معاشرے کو جذباتیت سے نکال کر عقل کی دنیا میں لاکر چلنا سکھا دیا ہے۔ جس کا واضع ثبوت ہمارے موجودہ دور کی  جواں نسل کا رویہ  ہے جس میں مہم جوئی کا فقدان پایا جاتا ہے آج بھی فورسزمیں بھرتی ہونے کے خواہش مندنوجوانوں کی کمی نہیں مگر آئے روز کی دہشتگردی  اور آنکھوں سے دیکھے جانے والے خون خرابہ کے واقعات نے نوجوانوں میں مہم جوئی کی خواہشات کو بہت کم کردیا ہے۔
قوموں میں جنگی خواہشات کی کمی تب پیدا ہونے لگتی ہے جب وہ جنگی حالات سے شدید متاثر ہوئے ہوں تب وہ امن کی طرف متوجہ ہونے لگتے ہیں اور اپنی اصلاح کی جانب سفر کا آغاز کرتے ہیں تب نہ کوئی ادارہ، نہ کوئی محترم مولوی نہ استاد اور نہ ہی سیاستدان نوجوانوں کے تند و تیز سوالات سے بچ سکتے ہے۔ سماجی تبدیلی کے اس لہر کو قبول کرنے کی ضرورت ہے  استاد بھی محترم ہے، مولوی بھی اور ادارے بھی مگر مقدس کوئی نہیں لہذا سوالات کا جواب دلائل سے اور قلم کا جواب قلم سے دینے کی خوبصورت علمی سفرکا آغاز ہی قوموں کو زوال سے نکال کر عروج کی جانب لیکر جاتی ہے۔

تحریر:امیر بخش بلوچ

Friday, 23 May 2014

ائیر ہوسٹس کی درخواست۔۔۔تھانیدار کے نام

صدائیں دیتے ہوئے اور خاک اُڑاتے ہوئے


عربی ادب

عربی زبان میں تخلیق کیا گیا ادب، چھٹی صدی تا عصر حاضر۔ اس ادب کی جڑیں جزیرہ نما عرب کے نیم خانہ بدوش قبیلوں میں ہیں۔ اس کی اشاعت ساتویں اور آٹھویں صدی میں ظہور اسلام کے ساتھ قریبی طور پر منسلک ہے۔ عربی زبان اور عربی ثقافت کا اثر اسلام کے ساتھ ساتھ سارے مشرق وسطیٰ اور حتیٰ کہ افغانستان، سپین اور شمالی افریقہ کے اٹلانٹک ساحل تک بھی پہنچا۔ آج کا عربی ادب جغرافیائی و ملکی حدود سے ماورا ہے اور اس میں متعدد اصناف شامل ہیں۔ اہم تاریخی واقعات نے عربی ادب کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ساتویں اور آٹھویں صدی میں عرب-اسلامی فتوحات نے ایک وسیع کثیر القومی سلطنت تشکیل دی جس میں دانش وروں اور محققین نے فروغ پایا۔ اس سلطنت کے اندر تخلیق کیا گیا ادب موضوع اور ندرت کے اعتبار سے قرون وسطیٰ کے یورپی ادب پر فوقیت رکھتا ہے۔ عرب معاشرے میں کوئی سائنس دان یا مؤرخین موجود نہیں تھے، لیکن فصیح البیانی، سلاست اور خوب صورت شعر گوئی کا شوق اپنی انتہاؤں کو چھو رہا تھا۔ عرب بدو کی زبان عبرانی سے کافی ملتی جلتی تھی۔ عربوں نے اپنی زبان کی قدامت اور فصاحت پر فخر کیا، قلم یا زبان کے ذریعہ اس کی نغمگی کو فروغ دیا، اور وجد کے عالم میں شاعروں کو سنا جو صحرائی خیموں یا تیوہاروں کے موقعہ پر اُنہیں غیر مختتم قافیوں اور سروں میں اپنے سورماوں، قبیلوں اور بادشاہوں کی جنگوں اور محبتوں کی داستانیں سنایا کرتے تھے۔ قرون وسطیٰ کا عربی ادب شاعری اور نثر کا ایک وسیع ذخیرہ سمیٹے ہوئے ہے۔ ان تصنیفات میں قصے، کہانیاں، فلسفیانہ مقالے، دینیاتی تحریریں، سوانحات، ادبی تنقید اور جغرافیہ و تاریخ وغیرہ پر تحریریں شامل ہیں۔ اس عہد کا آغاز عروج اسلام کے ساتھ ہوا اور مغرب کا اثر غالب آ جانے تک قائم رہا۔ عربی زبان اور اسے مؤثر انداز میں استعمال کرنے کا فن قرون وسطیٰ میں منضبط ہوا۔ اس دور کی نثری تحریروں میں ’’ادب‘‘ روایت وجۂ افتخار تھی۔ اس صنف نے حکایاتی نثر کو دیگر عناصر کے ساتھ ملایا۔ ادب پاروں کو تعلیمی اور تفریحی دونوں مقاصد کے تحت لکھا گیا۔ ادب کے مجموعوں میں ایک اہم موضوع ادبی کردار تھے، جیسے بن بلائے مہمان، کنجوس، ذہین لوگ اور دیوانے۔ قرون وسطیٰ کے ادب کی نمائندہ روشنیوں میں الجاحظ، ابن قتیبہ اور ابن عبد ربیہی شامل تھے۔ نویں صدی کے محقق اور عالم الجاحظ کو عرب ادب ونثر کا عظیم ترین سخن نواز خیال کیا جاتا ہے۔ بخیل لوگوں کے متعلق کہانیوں پر مشتمل ’’کتاب البخلأ‘‘ ایک کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ قرون وسطیٰ کے اسلامی دانشور اور علما حیرت انگیز طور پر نہایت متنوع موضوعات سے شناسا تھے۔ اس کی ایک مثال بارہویں صدی کا اندلسی طبیب اور فلسفی ابن طفیل ہے۔ اس نے ’’حئی ابن یقظان‘‘ نامی ایک تمثیل لکھی جس میں ایک الگ تھلگ صحرائی جزیرے پر تنہا پرورش پانے والا بچہ صرف منطق استعمال کرنے کے ذریعہ سچائی تک پہنچتا ہے۔ محققین کی رائے میں عربی ثقافت پندرہویں اور سولہویں صدیوں کے دوران انحطاط کا شکار ہو گئی تھی، تاہم اس دور میں ہمیں انحطاط کی بجائے ایک ذوق کی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ چودہویں صدی میں ہی نثر ایک مختلف انداز اختیار کر چکی تھی۔ مثلاً شمالی افریقہ کے ابن بطوطہ نے ساری اسلامی دنیا میں اپنے اسفار کا حال لکھا اور چودہویں صدی میں شمالی افریقہ کے ہی مؤرخ ابن خلدون نے تاریخ فلسفہ کی ایک اہم ترین کتاب لکھی۔ پندرہویں صدی کے محقق جلال الدین سیوطی کی تصانیف میں دینیاتی مسائل سے لے کر ادبی موضوعات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ 1798ء میں فرانسیسی جرنیل نیپولین بوناپارٹ اور اس کی فوج نے مصر پر حملہ کیا۔ اس واقعہ نے عربی ادب میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ مغربی استبدادیت اپنے ساتھ نئی اصناف بھی لائی۔ سب سے اہم بات یہ کہ بعد ازاں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں خود مختار ممالک بننے سے عربی ادبی منظر میں کئی قسم کے نکتہ ہائے نظر مقبول ہونے لگے۔ ادبی دنیا میں دوبارہ گہما گہمی شروع ہوئی، اگرچہ زیادہ تر اہل ِقلم پرانی اصناف ہی اپنائے رہے۔ مثلاً لبنان کے ناسف الیزدی نے قرون وسطیٰ کی طرز پر مقامۃ لکھی۔ ان مقامۃ نے بیسویں صدی کے نثر نگاروں کے ادبی تجربات کے لیے مثالی نمونے کا کام دیا، جیسے محمد المویلہی، احمد شوقی اور حافظ ابراہیم مصری۔ انجام کار عربی شاعروں نے روایتی اصناف اور موضوعات سے تعلق توڑا اور آزاد نظم جیسی نئی اصناف سخن کی جانب دیکھا۔ عراقی شاعرہ نازک الملائکہ 1940-50ء کی دہائی میں آزاد نظم کے رجحان کے ساتھ پوری طرح منسلک نظر آتی ہے۔ جدید عربی شاعری کئی رجحانات اور مذہبی تجربات کا ملغوبہ ہے۔ صالح عبدالصبور مصری، ایڈونس شامی اور محمود درویش فلسطینی جیسے شعرا نے شاعری کو جدید عربی ادب کا ایک بنیادی اور جاندار حصہ بنے رہنے میں مدد دی۔ جدید عہد میں نثری روایت بھی گہرے بدلاؤ کے عمل سے گزری۔ نثری روایت بھی اساسی تبدیلیوں کے عمل سے گزری ہے۔ ڈرامہ نے اپنی علیحدہ جگہ بنائی اور وہ محض مقامۃ سے ہی ماخوذ نہیں۔ معاصر عربی تھیئٹر سے منسلک مصنف مصر کا توفیق الحاکم ہے۔ اس نے اپنے کھیل ’’شہرزاد‘‘ (1934ء) میں الف لیلہ و لیلہ کی مشہور کہانی پیش کی۔ مصری ادیب حسین ہیکل کے ’’زینب‘‘ (1913ء) کو عربی کا پہلا ناول مانا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے دوران افسانے کے ساتھ ساتھ ناول بھی اہمیت اختیار کرتا گیا۔ مصر کے نجیب محفوظ کو 1988ء میں نوبیل انعام برائے ادب دیا گیا۔ اس کا ’’الثلثیہ‘‘ جس میں ایک مصری خاندان کی آزمائشوں کا حال لکھا ہے، باعث شہرت بنا۔ یہ الثلثیہ تین حصوں پر مشتمل ہے: ’’بیان القصرین‘‘ (1956ء)؛ ’’قصر الشوق‘‘ (1956ء) اور ’’السکریہ‘‘ (1957ء)۔ مصر ادریسی کو عربی افسانے کا گرو تسلیم کیا جاتا ہے۔ فلسطینی ادیب ایمائل حبیبی اپنے ناول ’’الواقعی الغریب فی اختفا سعید ابی النہس المتشاعل‘‘ (1974ء) کے لیے مشہور ہے۔ وہ اسرائیل میں آباد فلسطینیوں کی حالت زار بیان کرنے کے لیے مزاح اور طنز کا استعمال کرتا ہے۔ عورتوں نے بھی عربی ادب میں اپنی موجودگی منوائی ہے۔ لبنانی خانہ جنگی (1975-80ء) کے بارے میں لبنانی مصنفہ ہنان الشیخ کی تخلیقات میں ’’حکایت زہرا‘‘ (1980ء) شامل ہے۔ شاید سب سے زیادہ ممتاز اور واشگاف عرب مصنفہ نول ال سعدوی ہے جس کی زبردست نثر نے بہت سے مداحوں کے ساتھ ساتھ دشمن بھی پیدا کیے۔ عرب دنیا میں اسلامی رجحان کو تقویت ملنے سے عربی ادب نے ایک نیا رنگ اختیار کرنا شروع کیا ہے۔مسلم محمود کے ناول بیسٹ سیلرز ہیں۔ مسلمان سیاسی کارکن خاتون زینب الغزالی کی یاد داشتیں ’’ایام من حیاتی‘‘ (1977ء) کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ عربی ادبی روایت کی قوائیت مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے دارالحکومت شہروں کی گلیوں میں چلتے ہوئے بک شاپس پر نظر ڈالنے سے پتا چلتی ہے۔ لندن، پیرس اور دیگر اہم شہروں کے بک سٹورز بھی اس قسم کا تاثر دیتے ہیں۔ 

انسائیکلو پیڈیاادبیاتِ عالم سے ماخوذ

تحریر: یاسر جواد

Thursday, 22 May 2014

ساختیات کے ماہر:ڈاکٹر گوپی چند نارنگ

ہندوستان سے ہمارے سیاسی تعلقات کیسے ہی ہوں، ادبی مراسم نہایت خوشگوار ہیں۔ یہاں کے ادیب اوروہاں کے ادیب یہاں کثرت سے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وجہ سے ادب ، ادب نہیں رہا، سیروسیاحت کا وسیلہ بن گیاہے ۔ اس صورت حال سے بہت سے جعلی ادیبوں نے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ جنھیں اپنے ملک میں کوئی نہیں پوچھتا، وہ دوسرے ملک میں جاکر ’’مشاہیر‘‘ میں اپنا شمار کراتے ہیں۔ وہاں ریڈیو کی اردو سروس میں خارج از آہنگ انٹرویو دیتے ہیں، یہاں مشاعروں میں خارج از وزن ومعنی شعر سنا کر سامعین کا مذاق اور اپنا گلا خراب کرتے ہیں۔ بعض ’’مشاہیر‘‘ سفر نامے بھی لکھتے ہیں جنھیں لکھنے کے لیے صرف ارادے کی اور پڑھنے کے لیے حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہندوستان سے آنے والے ادیب کئی طرح کے ہوتے ہیں ۔ کچھ تووہ ہیں جنھیں تفریحی مقاصد کے لیے بلایا جاتا ہے۔ وہ ’’اسی مے خانے کی مٹی اسی مے خانے میں‘‘ کے مصداق مشاعروں میں صرف یا خرچ ہوجاتے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو ’’تبادلے‘‘ کی اسکیم کے تحت تشریف لاتے ہیں ۔ جس طرح بعض ممالک میں قیدیوں کا تبادلہ ہوتا ہے، اسی طرح پاک وہند کے درمیان غیر سرکاری سطح پر ادیبوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ وہ یوں کہ کچھ پاکستانی ادیب اپنے وسائل یا اثرات سے کچھ ایسے ہندوستانی ادیبوں کو ادبی جلسوں میں مدعو کرتے ہیں جو اپنے ملک میں باوسیلہ اور با اثر ہوتے ہیں۔ پھر وہ جوابی کاروائی کے طور پر اپنے پاکستانی دوستوں کو ہندوستان بلا کر حساب برابر کردیتے ہیں۔ کچھ ہندوستانی اہل قلم ایسے ہیں جو صرف علمی وادبی مقاصد کے تحت تشریف لاتے ہیں۔ وہ علمی وادبی مجالس میں شرکت کرتے ہیں، اہل علم سے ملاقاتیں کرتے ہیں، پاکستان کی ادبی صورت حال کا مطالعہ کرتے ہیں اور نہایت خوش گوار اثر چھوڑ کر رخصت ہوجاتے ہیں۔ ایسے ادیبوں میں جگن ناتھ آزاد، علی سردار جعفری، ڈاکٹر نثار احمد فاروقی، ڈاکٹر خلیق انجم، جیلانی بانو، علی جواد زیدی، شمس الرحمان فاروقی، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور دوسرے کئی اہل قلم شامل ہیں۔ اس فہرست میں ڈاکٹر نارنگ کا نام دیکھ کر ممکن ہے بعد لوگ زیر لب مسکرائیں اور یہ کہیںکہ وہ تو ادب سے زیادہ تعلقات عامہ کے حوالے سے سفر کرتے ہیں۔ ہمیں اس سے اتفاق نہیںہے۔ ڈاکٹر نارنگ علم کا سمندر ہیں۔ اس سمندر میں تعلقات عامہ کی حیثیت محض ایک گلیشیر کی سی ہے۔ گلیشیر کا کام صرف اتنا ہے کہ بھولے بھٹکے جہاز اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہوتے رہیں۔ ڈاکٹر نارنگ اپنے علم سے لوگوں کو فیض یاب کرتے ہیں، تعلقات عامہ سے حریفوں کو نیچا دکھاتے ہیں۔ ڈاکٹر نارنگ جب پاکستان تشریف لاتے ہیں تو یہاں کی ادبی دنیا میں زلزلہ آجاتا ہے۔ عام زلزلے سے زیر زمین سطح پر ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نارنگ قصہ زمین برسر زمین کے قائل ہیں۔ ان سے ملنے کے لیے لوگ بے تاب ہوتے ہیں اور وہ خودبھی سراپا اشتیاق بن جاتے ہیں۔ ہرایک سے اس طرح ملتے ہیں جیسے صرف اسی سے ملنے کے لیے انھوں نے زحمت سفر اٹھائی ہو۔ پچھلے ہفتے کراچی میں ایک مرتبہ پھرڈاکٹر نارنگ کے حوالے سے خلوص و محبت کے بے مثال مناظر دیکھنے میں آئے۔ اس مرتبہ موصوف کی آمد کا سبب عالی صاحب تھے۔ اس ابہام کی توضیح یہ ہے کہ مئی کے دوسرے ہفتے میں کسی عرب امارات میں عالی صاحب کا جشن منایا گیا۔ نارنگ صاحب نے اس جشن طرب میں شرکت کی اور ان کی شان میں ایک خوبصورت مقالہ پڑھا۔ اس مقالے میں عالی صاحب کی اتنی تعریف تھی کہ ان کے لیے اکیلے واپس آنا مشکل ہوگیا، لہٰذا نارنگ صاحب انھیں کراچی چھوڑنے آئے۔ کراچی میں نارنگ صاحب کا قیام ایک ایسے علاقے میں تھا جو شہر سے بہت دور ہے۔ اس لیے خیال تھا کہ وہ ہجوم عاشقاں سے محفوظ رہیں گے اور عالی صاحب کے بارے میں مقالہ لکھنے سے جو تھکن ہوئی ہے، اس کا ازالہ کریں گے۔ لیکن سننے میں آیا کہ صبح کاذب ہی سے عشاق ان کے ہاں پہنچ جاتے تھے، کوئی اخبار کے لیے انٹرویو لیتا تھا، کوئی اپنی کتاب رائے کے لیے پیش کرتا تھا اور کوئی اپنے ہاں مدعو کرنے کے لیے تحریری درخواست سامنے رکھتا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عالیہ امام نے بھی انھیں اپنے ہاں مدعو کیا حالاں کہ ترقی پسند مصنفین ڈاکٹر نارنگ سے اتنا ہی پرہیز کرتے ہیں جتنا خالص ادب سے۔ لیکن ڈاکٹر عالیہ امام بہت فراخ دل ہیں، وہ خا ص خاص رجعت پسندوں کو بھی شایان توجہ سمجھتی ہیں۔ خود ڈاکٹر نارنگ بھی فراخ دلی میں کچھ کم نہیں ۔ ترقی پسندوں سے وہ ایسی محبت سے ملتے ہیں جیسے ساتھ کے کھیلے ہوں۔ ایک محفل میں انھوں نے پروفیسر ممتاز حسین کو اپنا معنوی استاد بھی کہہ دیا۔ اس پر استاد لاغر مرادآبادی نے فرمایا: ’’ساختیات کے ماہر ہیں، ساختیات میں لفظوں سے بحث ہوتی ہے، معنوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس لیے معنوی استاد کا مطلب ہے لفظی استاد‘‘۔ نارنگ صاحب کے اعزاز میں یوں تو کئی جلسے ہوئے او ر بے شمار نجی دعوتوں میں انھوں نے شرکت کی لیکن انجمن ترقی اردو کا جلسہ بہت شان دار تھا (انجمن اب جلسے کرنے ہی کے لائق رہ گئی ہے) وسیع ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی بلکہ بقول شخصے، تل تو بڑی چیز ہے ڈاکٹر نارنگ جیسے ماہرلسانیات کے جلسے میں کوئی مصوتہ یا مصمتہ دھرنے کی بھی جگہ نہ تھی۔ موصوف کی تقریر کا موضوع ساختیات تھا۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ان کی ساری تحریروں کا موضوع یہی تھا۔ ساختیات عام دلچسپی کی چیز نہیں، اس لیے عام لوگوں نے’’ساختیات ‘‘ کو ’’خودساختیات‘‘ قسم کی چیز سمجھا۔ بعض اہل علم نے نارنگ صاحب پر اعتراضات بھی کیے۔ نارنگ صاحب نے ہر اعتراض کا مدلل جواب دے دیااور جہاں کوئی دلیل نہ ملی وہاں وہ طلاقت لسانی سے غالب آگئے۔ نارنگ صاحب تحریر ہی میں نہیں، تقریر میں بھی بے مثال ہیں۔ وہ ایسے خوب صورت انداز میں تقریر کرتے ہیں کہ سننے والے مسحور ہوجاتے ہیں۔ سامعین کی اس حالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نارنگ صاحب جو جی میں آتا ہے کہہ جاتے ہیں اور اس طرح ثابت کردیتے ہیں کہ وہ ساختیات ہی کے نہیں ’’خودساختیات‘‘ کے بھی ماہر ہیں۔ محمد حسین آزاد نے ’’شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار‘‘ میںغالبؔکے بارے میں لکھا ہے:’’بڑی دھوم دھام سے آئے اور ایک نقارہ اس زور سے بجایا کہ سب کے کان گنگ کردیے۔ کوئی سمجھا اور کوئی نہ سمجھا مگر سب واہ وا اور سبحان اللہ کرتے رہ گئے‘‘۔ ڈاکٹر نارنگ نے بھی ساختیات کا نقارہ اس زور سے بجایا ہے کہ سننے والوں کے کان گنگ اور دماغ مائوف کردیے ہیں۔سمجھنے والے خاموش ہیں اور نہ سمجھنے والے واہ وا اور سبحان اللہ کا شور مچا رہے ہیں۔ نارنگ صاحب کی کراچی میں موجودگی کے دوران انتظار حسین نے بھی لندن جاتے ہوئے چندگھنٹو ں کے لیے کراچی میں قیام کیا۔ لندن کے اردو مرکز میں ان کے ساتھ ایک شام منائی جارہی ہے ۔ کراچی کی ایک دعوت میں ڈاکٹر نارنگ اور انتظار حسین کی ملاقات ہوئی۔ کسی نے انتظار حسین سے پوچھا: ’’آپ لندن اکیلے جارہے ہیں یا آپ کے ساتھ کوئی مقالہ نگار بھی جارہا ہے‘‘؟ انھوں نے ڈاکٹر نارنگ کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا:’’میں جمیل الدین عالی کی طرح صاحب مقدور نہیں ہوں کہ نوحہ گر کو ساتھ رکھوں‘‘۔ نارنگ صاحب کا نیا تنقیدی مجموعہ’’ادبی تنقید اور اسلوبیات‘‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ یہ نہایت فکر انگیز مقالات کا مجموعہ ہے ۔ اردو میں ایسے تنقیدی مجموعے کم شائع ہوئے ہیں جن میں روایتی تنقید سے ہٹ کر بات کی گئی ہو۔ اس میں میر ، انیس اور اقبال کے اسلوبیاتی تجزیے ہیں۔ فیض وعالی کے معنیانی نظام کے جائزے ہیں۔ شہریار، بانی، ساقی، فاروقی اور افتخار عارف کی شاعری کے توصیفیے ہیں۔ نثری نظم کی شناخت بتائی ہے ۔ خواجہ حسن نظامی اور ڈاکٹر ذاکر حسین خاں کی نثر کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو خصوصا ساقی فاروقی اور افتخار عارف کو یہ مجموعہ ضرور پڑھنا چاہیے کہ ان کی شاعری کی اتنی تعریف کسی دوسری جگہ نہیں ملے گی۔ ڈاکٹر نارنگ نے ان دونوں پر لکھتے ہوئے قلم توڑ دیا ہے۔انھوں نے یہ اچھا ہی کیا اگر وہ خود قلم نہ توڑتے تو اس کتاب کے پڑھنے والے توڑ دیتے۔

مظفر علی سیّد کی کتاب "خامہ بگوش" سے اقتباس

بشکریہ: دُنیا نیوز